اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زبان ایسی ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی، ہماری زبان اُن کی سمجھ میں نہیں آتی تھی؛ اس لیے اُن سے بات چیت کرنے اور جذبات کے اظہار کاکوئی ذریعہ نہ تھا؛ لیکن ایک چیز ہمارے درمیان مشترک تھی، وہ یہ کہ جب بھی کسی مسلمان سے ملاقات ہوتی تو وہ کہتا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘اور اِس کے ذریعہ وہ جذبات کا اظہار کرتا، یہ حضورﷺ کی اتباع کی برکت تھی، اِس سنت نے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھا ہوا ہے اور رابطہ کا ذریعہ ہے، اور اِن ا لفاظ میں جو نور اور برکت ہے وہ کسی اور لفظ سے حاصل نہیں ہوسکتی، آج کل فیشن کی اتباع میں سلام کے بجائے کوئی ’’اداب عرض‘‘ کہتا ہے، کوئی تسلیمات کہتا ہے، کسی نے ’’سلام مسنون‘‘ کہہ دیا، یاد رکھیے اِن الفاظ سے سنت کا ثواب اور سنت کا نور حاصل نہیں ہوسکتا۔(اصلاحی خطبات: ۶؍۱۸۷) سلام کے بجائے ’’خدا حافظ ‘‘یا ’’فی امان اللہ‘‘ کہنے کا حکم اِس وقت ہمارے یہاں ایک نامناسب طریقہ رائج ہوگیا ہے اور وہ ہے سلام چھوڑ کر خدا حافظ، اللہ حافظ یا فی امان اللہ کہا جاتا ہے، اِس طرح رخصتی یا جدائی کے وقت سلام کے بجائے دوسرے کلمات کا ادا کرنا صحیح نہیں؛ کیوں کہ ہم نے سلام کو چھوڑ کر اُسے اختیار کیا ہے اور یہ شریعت کے اندر تبدیلی ہے، دین کے اندر ایسی تبدیلی کرنے کا کسی کو بھی اختیار نہیں ہے اور ایسا کرنا غلط ہے اور بالکل ممنوع ہے، ہاں اگر آپ واپسی پر پہلے سلام کریں، بعد میں اللہ حافظ یا فی امان اللہ کہہ دیں تواِس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بہر حال واپسی میں سلام کی سنت کو زندہ کریں اور رخصتی کے وقت سلام کو چھوڑ کر ،اُس کی جگہ فی امان اللہ کو فروغ نہ دیں؛ کیوں کہ اس طرح کرنا صحیح نہیں، میں اکثر ٹیلیفون پر یہی بات سنتا ہوں، لوگ ٹیلیفون بند کرتے وقت فی امان اللہ، اللہ حافظ کہتے ہیں، کوئی سلام نہیں کرتا، ٹیلیفون ہو یا زبانی ملاقات، دونوں کاایک ہی حکم ہے، پہلے سلام کرنا چاہیے، جب ٹیلیفون بند کرنے لگیں تو السلام علیکم ورحمۃ اللہکہہ کر پھر ٹیلیفون بند کریں، کسی کا دل چاہے تو سلام کے بعد فی امان اللہ کہہ لے، فی امان اللہ کہنا سنت نہیں، صرف جائز ہے۔(اصلاحی خطبات۹؍۴۶۰) سلام کے بعد خیریت معلوم کرنا سلام کی مشروعیت اِسی لیے ہوئی ہے کہ دو مسلمان ایک دوسرے کو امن وسلامتی کی دعا دیں اور اظہارِ محبت کے ساتھ، حقِ محبت واخوت کی ادائیگی کریں؛لہٰذا سلام کے بعد اگر فرصت ہو تو ایک دوسرے کی خیریت معلوم کریں، اُس کے اہلِ خانہ، کاروبار اور دیگر عبادات ومعاملات کے سلسلے میں دریافت کریں، اُس کی پریشانیوں کو سنیں اور تسلی کے چند کلمات کہیں، مشورے کی ضرورت ہو تو مفید مشورے دیں اور جس سے یہ سب معلوم کیا جائے، اُسے ہر حال میں خدا کی تعریف کرنی چاہیے، اِس سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے، مصیبت ختم ہوتی ہے، گلے شکوے کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے؛ لہٰذا ایسا شخص جس سے خیرت دریافت کی جائے وہ ’’الحمد للہ‘‘،’’ اللہ کا شکر ‘‘ہے، ’’خدا کا کرم‘‘ ہے جیسے الفاظ کہے؛ چناں چہ حضرت انس ابن مالکؓ سے مروی ہے :انہوں نے سنا کہ حضرت عمر ابن خطابؓ کو ایک شخص نے سلام کیا تو آپ نے جواب دے کر کہا: کیف أنت؟ کیسے ہو؟ اُس نے کہا أحمد إلیک اللہ(حضرت عمرؓ خوش