اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
توجیہ موجود ہے جیسا کہ اوپر گذرا؛ لیکن اس کے باوجود علماء دیوبند نے دونوں روایتوں کو تسلیم کیا ہے، اعتدال کا یہی مفہوم ہے، حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے: اِس میں (مصافحہ میں) وسعت ہے جس طرح چاہو کرو۔(امداد الفتاویٰ:۴؍۳۷۰) ایک ہاتھ سے مصافحہ پر اصرار اور شدت: آغاز، دلائل اور تجزیہ متقدمین کی کتابوں میں ’’مصافحہ ایک ہاتھ سے یا دو ہاتھوں سے کرنا چاہیے‘‘ اِس عنوان کے تحت کچھ لکھا ہوا نہیں ہے جو کچھ باتیں ملتی ہیں وہ مصافحہ کی روایتوں کے ضمن میں، یہ اس امرکی دلیل ہے کہ قرونِ اولیٰ میں یہ مسئلہ کوئی معرکۃ الآراء مسئلہ نہیں تھا؛ بلکہ عموماً دو ہاتھوں سے لوگ مصافحہ کیا کرتے تھے اور کسی نے کبھی ایک ہاتھ سے کرلیا تو اسے کوئی خلافِ سنت بھی نہیں کہتا تھا؛ لیکن بعد میں اس مسئلے کو بھی نظر لگ گئی اور اس مسئلے کو ناک کامسئلہ بنا لیا گیا، اور نوبت بایں جا رسید کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کو ایک مخصوص جماعت نے اصل سنت قرار دیا اور دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کا انکار کر دیا، جس سے مسئلے میں شدت بڑھتی گئی،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تاریخ پر کچھ روشنی ڈالی جائے، اور مقصد صحیح علم تک رسائی حاصل کرنا ہے، کسی کی تغلیط اور تضحیک ہر گز مقصود نہیں۔ ایک ہاتھ سے مصافحہ کی ابتداء ہندوستان میں انگریز کی آمد سے قبل کسی اسلامی کتاب میں دوہاتھ سے مصافحہ کرنے کو بدعت اور خلافِ سنت نہیں کہا گیا، اس دور میں مسلمان بوقتِ ملاقات دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتے تھے؛ لیکن انگریز ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے(یہ طریقہ اُن میں اب بھی رائج ہے) انگریز کے اس طریقے کو سب سے پہلے نیچریوں نے اپنایا اور کالجوں وغیرہ میں ایک ہاتھ کے مصافحہ کا رواج شروع ہوگیا؛ البتہ وہ لوگ اِس کو حاکمِ قوم کا طریقہ سمجھتے تھے، پھر نیچری حضرات کی دیکھا دیکھی، اہل حدیث حضرات میں بھی صرف ایک دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرنے کا رواج چل پڑا، یہاں بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے دو ہاتھوں سے مصافحہ کو جو مسلمانوں میں معروف ومتوارث تھا، خلافِ سنت قرار دیا اور ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کو عینِ سنت قرار دیا، اس طرح سلام اور مصافحہ جو محبت ومغفرت کا ذریعہ تھا وہ بھی اختلاف اور لڑائی کا ذریعہ بن گیا۔(تجلیات صفدر،بحذف واضافۃ :۱؍۱۴۱) مفتی تقی عثمانی زید مجدہ کا بیان ہے: آج کے دور میں ایک طرف توانگریزوں کی طرف سے فیشن چلا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا چاہیے، دوسری طرف بعض حلقوں کی طرف سے خاص طور پرسعودی عرب کے حضرات اس بارے میں تشدد اختیار کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ مصافحہ تو ایک ہی ہاتھ سے کرنا سنت ہے، دونوں ہاتھوں سے کرنا سنت نہیں۔ (اصلاحی خطبات:۶؍۱۷۶) اعتدال کا فیصلہ آپ کیجیے ابھی آپ نے حضرت گنگوہیؒ اور علامہ کشمیریؒ کی باتیں پڑھیں، جس میں انہوں نے مصافحہ بالید اور مصافحہ بالیدین دونوں کوتسلیم کیا ہے؛ مولف ِکتاب نے، تحفۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی دیکھی، جس میں مصافحہ کا ایک مستقل عنوان ہے’’فائدۃ في بیان