اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ناراضگی کی وجہ سے ترکِ سلام تعلق رکھنے میں اگر فتنہ ہو تو زیادہ میل جول نہ رکھا جائے؛ مگر سلام نہ ترک کیا جائے؛ اگر ایک اُن میں سے سلام کرتا ہے تو وہ برئ الذمہ ہوجائے گا، دوسرا اگر جواب نہیں دے گا تو وہ ذمہ داررہے گا۔(محمودیہ:۱۹؍۸۹) ٹیپ رکارڈ، ریڈیو وغیرہ سے کیا گیا سلام اگر ٹیپ رکارڈ میں کسی کے سلام کی آواز کو محفوظ کر لیا گیا ہو تو اس سلام کا جواب دینا ضروری نہیں ہے، اور یہی حکم اُس وقت ہوگاجب سلام کو کسی بھی آلہ میں محفوظ کر لیا جائے۔(۱) اور اگر آواز رکارڈنہ ہو مثلا: ریڈیو سے براہِ راست کوئی سلام کرے اور اصل آواز سنائی دے یا ٹی وی میں براہِ راست کوئی پروگرام Live کیا جائے اور اس میں کوئی سلام کرے تو احتیاط یہ ہے کہ سلام کا جواب دیا جائے۔(محمودیہ:۱۹؍۸۴) مزید وضاحت: اگر کیسٹ ، سی ڈی یا میموری وغیرہ میں سلام ریکارڈ کیا گیا ہو تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کے پاس کوئی پیغام ریکارڈ کر کے بھیجا جائے اور سلام میں اُس کو مخاطب بنایا گیا ہو، ایسی صورت میں جس کے نام پیغام ہے اور جس کو مخاطب بنایا گیا ہے اُسے سلام کا جواب دینا چاہیے، یہی حکم ) (VOICE SMSکاہوگا، اور اُسے خط والے مسئلہ پر قیاس کیا جائے گا، اور (۱) آج کل گھروںمیں ایک بیل لگائی جاتی ہے، بٹن دبانے پر آواز آتی ہے، ’’السلام علیکم‘‘ برائے مہربانی دروازہ کھولیے، اس سلام کا جواب واجب نہیں ہے، اسی طرح موبائل میں ’’السلام علیکم‘‘ کی رنگ ٹون لگادی جائے تو اس کا جواب واجب نہیں ہے۔مولف۔ اگر وہ کیسٹ وغیرہ کوئی قاصد لایا ہے اور پیغام سنتے وقت وہ بھی موجود ہے تو جواب میں اُسے بھی شریک کرنا چاہیے، جیسے قاصد کا مسئلہ ہے، یعنی وعلیہ وعلیکم السلامکہنا چاہیے۔دوسری صورت یہ ہے کہ کسی خاص شخص کو مخاطب نہ بنایا گیا ہو، جیسے کسی مقرر کی تقریر ہو اور اُس میں سامعین کو سلام کیا گیا ہو، تو ایسے خطاب کو بہت سے لوگ سن چکے ہوتے ہیں، اور آئندہ بھی سنیں گے، جہاں وہ تقریر ہوئی ہے وہاں مجمع میں سے اگر ایک شخص نے بھی جواب دے دیا ہوجیسا کہ عموماً ہوتا ہے ، تو یہ سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا، آئندہ سننے والے کے ذمہ جواب دینا واجب نہیں ہے،یہی حکم اُن تقریروں کے شروع میں کیے ہوئے سلام کا ہوگا جو تقریریں YOUTUBE) یا(WHATSAPP پر ایک دوسرے کو بھیجی جاتی ہیں، پھر سنی جاتی ہیں۔(مولف) سلام کے وقت جھکنا ممنو ع ہے حضرت انسؓ سے مروی ہے :کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم میں سے کوئی جب اپنے مسلمان بھائی یا اپنے دوست سے ملاقات کرے تو کیا وہ جھک جائے؟ آپ نے فرمایا: نہیں،اُس شخص نے کہا:کہ کیا اُس سے گلے ملے اور اُس کو بوسہ دے آپ نے فرمایا نہیں؛(کیوں کہ اس میں فساد کا اندیشہ ہے) اس نے کہا، تو کیا اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس سے مصافحہ کرے، آپ نے فرمایا: ہاں۔(ترمذی، رقم: ۲۷۲۹، باب ما جاء فی المصافحۃ)