اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لفظ ’’سلام‘‘ کا اصل مفہوم ذہن میں رکھتے ہوئے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کہہ لیا تو اللہ کی طرف سے ایک محافظ فرشتہ مقرر ہوتا ہے جو دوسری نماز تک اس کی حفاظت کرتاہے، یہ دفعِ مضرت ہوا، اور جلبِ منفعت یہ ہوتا ہے کہ سلامتی کے حصول میں دوام واستمرار رہتا ہے۔ (بدائع:۱۹۵) الغرض اختتامِ صلاۃ پر لفظ ’’سلام‘‘ کا انتخاب ایک ایسا انتخاب ہے جو مالک حقیقی کا انتخاب ہے، اِس کے فوائد وثمرات کا مشاہدہ بصارت سے نہیں، بصیرت سے کیا جاسکتا ہے اور بصیرت کے حصول کے لیے اخلاص وروحانیت کا حصول نا گزیر امر ہے، اور یہی بات بہت مشکل ہے؛ لیکن ناممکن الحصول نہیں ہے، ہمتِ مردا ں مددِ خدا۔ مفتی تقی صاحب لکھتے ہیں: بہر حال ’’سلام‘ معمولی چیز نہیں یہ زبردست دعا ہے، اوراِس کو دعا کی نیت سے کہنا اور سننا چاہیے، سچی بات یہ ہے کہ اگر ایک آدمی کی بھی دعا ہمارے حق میں قبول ہوجائے تو ہمارا بیڑہ پار ہوجائے، اِس لیے کہ دنیا وآخرت کی ساری نعمتیں اِس سلام کے اندر جمع ہیں۔ (اصلاحی خطبات:۶؍۱۶۸) ایک اشکال اوراس کا جواب اختتام نماز پر سلام کا حکم دیا گیا ہے؛ تاکہ نمازی، نماز کے بعد شرور وفتن سے سلامت رہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اُس نے تو السلام علیکم کہا ہے، اس نے تو دوسرے کو سلامتی کی دعا دی ہے، اس کا جواب مندرجہ ذیل اقتباس میں پڑھیے، اقتباس مفتی تقی صاحب کا ہے: اِسی وجہ سے بزرگوں نے فرمایا :کہ نماز کے اندر جب آدمی سلام پھیرے تو داہنی طرف سلام پھیرتے وقت یہ نیت کرلے کہ میرے دائیں جانب جتنے مسلمان اور جتنے فرشتے ہیں اُن سب پر سلامتی بھیج رہا ہوں ،اور جب بائیں جانب سلام پھیرے تو اُس وقت یہ نیت کرے کہ میرے بائیں جانب جتنے مسلمان اور جتنے فرشتے ہیں، اُن سب پر سلامتی بھیج رہا ہوں اور پھر یہ ممکن نہیں کہ تم فرشتوں کو سلام کرو اور وہ جواب نہ دیں، وہ ضرور جواب دیں گے اور اِس طرح اُن کی دعائیں تمہیں حاصل ہوجائیں گی؛ لیکن ہم لوگ بے خیالی میں سلام پھیردیتے ہیں اور نیت نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اِس عظیم فائدے اور ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔ (اصلاحی خطبات:۶؍۱۶۳) اللہم صل علی محمد اور السلام علیکم أیہا النبي کا فرق نماز میں سلام کرتے ہوئے، السلام علیک أیہا النبيکہنے کا حکم ہے، علیک، خطاب کا صیغہ ہے؛ عموماً خطاب کے لیے مخاطب کا سامنے ہونا ضروری ہوتا ہے، اور درود پڑھتے ہوئے الصلاۃ علیک نہیں کہا جاتا؛ بلکہ اللہم صل علی محمدپڑھنے کا حکم ہے، علی محمد غائب کا صیغہ ہوا، تو ایک خطاب اور دوسراغائب، اِس انتخاب میں کیا حکمت ہے؟ ما الحکمۃ في کون السلام وقع بصیغۃ الخطاب والصلاۃ بصیغۃ الغیبۃ؟ عموماً اِس سوال کا جواب یہ دیا جاتا کہ ’’السلام علیک أیہا النبي‘‘ یہ حکایت ہے، حضورﷺ جب با حیات تھے ،صحابہ سلام ایسے ہی پڑھتے تھے، اسی کی حکایت حضور کی وفات کے بعد بھی کی جاتی ہے، اور اللہم صل علی محمد کے تحت یہ جواب دیا جاتا ہے کہ حضور اقدسﷺ کی پاک ذات میں کوئی عیب نہیں اور ہم سراپا عیوب