اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت تھانویؒ کی اصولی بات ادب: جب کسی کے پاس ملنے یا کچھ کہنے جاؤ اور اُس کو کسی شُغل کی وجہ سے فرصت نہ ہو مثلاً: قرآن مجید کی تلاوت کررہا ہے، یا وظیفہ پڑھ رہا ہے یا قصداً مقامِ خلوت میں بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے یا سونے کے لیے آمادہ ہے یا قرائن سے اور کوئی ایسی حالت معلوم ہو، جس سے غالباً اس شخص کی طرف متوجہ ہونے سے اس کا حرج ہوگا یا اس کو گرانی وپریشانی ہوگی، ایسے وقت میں اُس سے کلام وسلام مت کرو یا تو چلے جاؤ اور اگر بہت ہی ضرورت کی بات ہو تو مخاطب سے پہلے پوچھ لو کہ کچھ کہنا چاہتا ہوں، پھر اجازت کے بعد کہہ دے اس سے تنگی نہیں ہوتی اور یا فرصت کا انتظار کرو، جب اس کو فارغ دیکھو، مل لو۔(آداب المعاشرت در اصلاحی نصاب:۴۶۶) ذکر کرنے والے کو سلام کرنا ذکرایک ایسی عبادت ہے جس سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے، لسان ذاکر اور قلبِ شاکر، فلاحِ دارین کا سبب ہیں؛ لیکن ذکر کی یہ خاصیت من کل الوجوہ اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب زبان وقلب، بوقتِ ذکر ایک دوسرے سے مربوط ہوں،اور اس ارتباط کے لیے استغراقی کیفیت نہایت ضروری چیز ہے، اب اگر کوئی ایسی استغراقی کیفیت کے ساتھ مصروفِ ذکر ہو، تو اسے سلام کر کے خواہ مخواہ توجہ دوسری جانب مبذول کرانا، مکروہ ہے، بعض ذاکرین آنکھ بند کر کے ذکر کرتے ہیں، بعض کے اذکار عددی ہوتے ہیں، اگر انہیں سلام کریں گے تو ڈرنے اور عدد بھول جانے کا خطرہ ہے، اس لیے انہیں سلام نہ کرنا مناسب ہے۔(۱) (۱) عبادت خواہ وہ ذکر ہو یا قرآن کی تلاوت یا نماز وغیرہ ان اوقات میں سلام کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص حاکم کے پاس بیٹھا ہو، اُس سے باتیں کررہا ہو اور ایک شخص اُس کو اپنی طرف مشغول کررہا ہو تو کیا یہ خلافِ ادب نہ ہوگا،اسلامی تہذیب: ۶۲۔ ویکرہ السلام…علی ذاکر اللہ تعالٰی۔(الفقہ الإسلامي:۴؍۲۶۸۵) فیکرہ السلام علی مشتغل بذکر اللہ تعالیٰ بأي وجہ کان۔(رد المحتار:۱؍۶۱۶، باب ما یفسد الصلاۃ) اور ایسے ذاکرین کو کوئی سلام کرہی دے تو اگر خلل نہ ہو تو جواب دے سکتے ہیں، اگر جواب نہ دیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ حکي عن الشیخ الإمام الجلیل أبي بکر محمد بن الفضل البخاري أنہ کان یقول فیمن جلس للذکر أي ذکر کان؛ فدخل علیہ داخل وسلَّم علیہ، وسعہ أن لا یرد، کذا في المحیط۔(ہندیہ: ۵؍۳۲۶) کھانا کھانے والے کو سلام کرنا علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: یکرہ علی عاجز عن الرد حقیقۃ کآکل، ظاہرہ أن ذلک مخصوص بحال وضع اللقمۃ في الفم، وأما قبلُ وبعدُ؛ فلا یکرہ لعدم العجز۔(رد المحتار:۹؍۵۹۵) جو شخص سلام کا جواب دینے پر حقیقتاً قادر نہ ہو اُسے سلام کرنا مکروہ ہے، مثلا کھانا کھانے والا؛ لیکن یہ کراہت خاص ہے اِس صورت کے ساتھ کہ لقمہ منھ میں ہو؛ اگر لقمہ منھ میں نہیں ہے تو سلام کرنا مکروہ نہیں ہے۔ کھانا کھانے والے کو سلام کرنا فی نفسہ مکروہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی قباحت ہے، کراہت کی علت اور وجہ یہاں بھی وہی ہے جو ما قبل میں گذری ہے؛ یعنی