اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سوال اٹھایا ہے وہ لکھتے ہیں: یہ وجہ غور طلب ہے کہ قرآن وحدیث میں کہیں غیر مسلم شہریوں کو ذلیل کرنے کا حکم نہیں؛ ایسی صورت میں کوئی غیر مسلم کسی مسلم ملک کا شہری بن کر نہیں رہ سکتا۔(تحفۃ الالمعی:۴؍۵۳۷) اب سوال یہ ہے کہ ممانعت کی اصل وجہ کیا ہے؟ اِس سلسلے میں انہوں نے لطیف انداز میں گفتگو کی ہے، وہ لکھتے ہیں: (۱) تفصیلی روایت کے لیے امام بیہقیؒ کی شعب الإیمان، رقم الحدیث: ۸۹۱۰ اور المصنف:۶؍۱۵۴ دیکھیں۔ مدینہ منورہ اور اُس کے قرب وجوار میں یہودی آباد تھے،وہ مسلمانوں کو سلام کیا کرتے تھے؛ مگر وہ یہ حرکت کرتے تھے کہ السلام علیکم کے بجائے السام علیکم کہتے تھے، جس کے معنی ہیں: تم مرو، جب نبی ﷺ کو اس حرکت کا علم ہوا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا: یہود السام علیکم کہتے ہیں، پس تم جواب میں علیکم کہو یعنی ہم نہیں تم مرو؛ چناں چہ یہودیوں نے یہ حرکت چھوڑ دی۔ اور اِس حدیث میں نبیﷺ نے مسلمانوں کو دو حکم اور دیے ہیں، ایک اُن کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے، دوسرا جب آمنا سامنا ہو تو اُن کو دائیں بائیں ہٹنے پر مجبور کیا جائے، یہ دونوں حکم آپ نے مسلمانوں کے احساسِ کمتری کو ختم کرنے کے لیے دئیے تھے۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جو یہودی آباد تھے وہ مذہب، سیاست، تعلیم، کاروبار اور مال ودولت میں مشرکین سے آگے تھے، اور مشرکین اُن کو اپنے سے برتر سمجھتے تھے، پھر جب اسلام کا زمانہ آیا تو مشرکین مسلمان ہو گئے؛ مگر اصلی یہود عام طور پر مسلمان نہیں ہوئے، صرف وہ عرب جو یہودی بن گئے تھے، مسلمان ہوئے، اُن مسلمانوں کے دلوں میں پہلے سے یہودیوں کی عظمت جاگزیں تھی، وہ اب بھی یہودیوں کو اپنے سے افضل سمجھتے تھے، اِس احساسِ کمتری کو ختم کرنے کے لیے نبیﷺ نے مذکورہ دونوں حکم دیے ہیں؛ پس یہ وقتی احکام تھے(احساس کمتری ختم کرنے کی ایک تدبیر تھی) اور اُن کی سیاسی مصلحت تھی، اب اہل کتاب کوابتداء ً سلام بھی کرسکتے ہیں، اور اُن کے سلام کا جواب بھی دے سکتے ہیں(۱) اِسی طرح مسلمان بھی راستہ سے ہٹ سکتا ہے۔ (تحفۃ ا لالمعی:۴؍۵۳۶) غیر مسلم کو نمشکارکرنا اور ہاتھ جوڑنا نمستے اور نمشکار غیر اسلامی اور مشرکانہ عقیدہ پر مبنی تعبیرات ہیں؛اس لیے مسلمانوں کے لیے ایسے الفاظ کا کہنا قطعاً درست نہیں، ہاتھ جوڑ نا بھی غیر اسلامی طریقہ ہے، زبان سے آداب وغیرہ کہہ دینا درست ہے؛ بوقت ضرورت سلام بھی کیا جاسکتا ہے؛ لیکن سلام میں کفروشرک سے سلامتی کا معنی ذہن میں رکھا جائے تو بہتر ہے۔(کفایت المفتی:۱؍۳۴۶) نمستے، پڑنام یا ست شری اکال کہنا مذکورہ کلمات غیر مسلموں کے یہاں مذہبی شعار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں؛ اس لیے مسلمان کے لیے اِن کا استعمال ممنوع ہے: لقولہ علیہ السلام: من تشبہ بقوم فہو منہم اِن