اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائے کہ اگر بطور اعجاز کے کہیں خود حضورﷺ تشریف لے آویں اور رویت اور یقین دونوں حاصل ہوجاویں، کیا علی قاری ومن تبعہ کھڑے نہ ہوجاویں۔(امداد الفتاوی:۳؍۲۷۴) قرآن شریف کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا قرآن شریف کی تعظیم کے واسطے کھڑا ہونا درست ہے، قرآن شریف کلام الٰہی تعالیٰ شانہ ہے؛ اس کی جس قدر تعظیم ہو، بجاہے۔(فتاویٰ رشیدیہ: ۵۹۹) ایک تعارض اور اس کا حل: حضرت انسؓ کی ایک روایت پیچھے گذری ہے کہ ایک صاحب نے حضورﷺ سے پوچھا کہ بوقت ملاقات کوئی شخص جھک سکتا ہے تو آپﷺ نے فرمایا نہیں(کیوں کہ جھکنا رکوع کے مشابہ ہے اور جیسے غیر اللہ کے سامنے سجدہ حرام ہے، رکوع کرنا بھی حرام ہے) (ترمذی، رقم: ۲۷۲۹) اب سوال ہے کہ جن شرطوں کے ساتھ قدم بوسی کی اجازت ہے تو اس میں انحناء (جھکنا) تو پایا جائے گا، اِسی لیے فقہاء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ قدم بوسی اس صورت میں تو جائز ہے جب انحناء رأس، بہ ہیئت رکوع وسجود نہ ہو، اُن کا مستدل مذکورہ روایت ہے؛ لیکن فقہاء کی دوسری جماعت کہتی ہے کہ جب قدم بوسی جائز ہے تو اگر چہ بصورتِ رکوع وسجود، اِنحنائِ رأس سے ہو تب بھی جائز ہے، بہ ظاہر دونوں باتوں میں تعارض ہے؟ اس تعارض کا جواب یہ ہے کہ: جو انحناء مقصوداً ہو وہ ناجائز ہے اور جو بہ ضرورت تقبیل کے لازم آجائے وہ حکم میں تقبیل کے تابع ہے۔(جواہر الفقہ:۱؍۲۰۰) تقبیل قدم کا مطلب سوال: تقبیل قدم کے کیا معنی ہیں؟ قدم کو بوسہ دینا، حجر اسود کی طرح ہاتھ سے قدم کو مس کر کے ہاتھ کو بوسہ دینا یا عام معنی لیے جاویں۔ جواب: معنی اول ہی اس کا مدلول ہے اور ثانی بے اصل ہے۔(ایضاً) خلاصۂ کلام مصافحہ، معانقہ اور تقبیل کی روایات، تشریحات، مسائل اور اعتراضات وجوابات آپ نے تفصیل سے ملاحظہ فرمائے: تفصیلی گفتگو کا مقصد اہل علم تک بات پہنچانا ہے؛ تاکہ وہ تنقیدی وتحقیقی جائزہ لے سکیں، ان تمام تفصیلات کا خلاصہ ذیل میں عوام کے لیے لکھا جارہا ہے، خلاصہ مولف کتاب کو اپنی طرف سے لکھناتھا،اُسی دوران جواھر الفقہ دیکھنے کی توفیق ہوئی، جس میں ’’دست بوسی اور قدم بوسی‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ ہے، جو در حقیقت بارھویں صدی ہجری کے مشائخ سندھ میں سے ایک شیخ امام محمد عابد سندھیؒ کا ایک عربی مقالہ ہے الکرامۃ والتقبیل کے نام سے، آپ کے حواشی تقریبا صحاح ستہ پر معروف ومقبول ہیں، اس میں انہوں نے مستقل طور سے کرامت اور تقبیل کی روایات اور تطبیقات کا تذکرہ بہت ہی آسان انداز میں کیا ہے، مفتی شفیع صاحبؒ نے اُس رسالے کا ترجمہ جواھر الفقہ میں اضافہ کے ساتھ شامل کیاہے، اخیر میں خلاصۂ کلام پیش کیا ہے، جس میں بحث تو معانقہ اور تقبیل کے سلسلے میں ہے؛ لیکن اسی خلاصہ پر مصافحہ اور قیام کو قیاس کیا جاسکتا ہے، مولف اسی خلاصہ کو من وعن نقل کررہا ہے، بڑوں کی باتوں میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے، ذرا پڑھ کر اندازہ کیجیے۔