اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کریں؛ کثرت کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑی دیر پہلے ملاقات ہوئی تھی اور ذرا دیر کے بعد پھر ملاقات ہوگئی تو عزیمت اور ہمت کا تقاضہ یہ ہے کہ پھر سلام کریں، یہ نہیں کہ سویرے جو ایک مرتبہ ملاقات ہوئی تھی تو سلام کرلیا اورشام کو پھر ملاقات ہورہی ہے تو بغیر سلام کئے گفتگو شروع ہوگئی؛ عموماً خواتین میں اِس حوالے سے کوتاہی پائی جاتی ہے، اُن میں سلام کی عادت نہیں ہوتی - سادات اور بزرگ علمی گھرانے مستثنی ہیں، الحمد للہ اُن کی تربیت اُن کے بڑے کرتے ہیں- اِس لیے خواتین کو اِس حوالے سے پابند بنانا چاہیے اور انہیں پابند بنانے کے لیے خود گھر کے بڑے لوگوں کواِس کا پابند بننا ہوگا، تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، جو روایتیں افشائِ سلام کے بارے میں منقول ہیں، مخاطب صرف مرد حضرات نہیں ہیں؛ بلکہ خواتین بھی برابر کی مخاطب ہیں،حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں: عورتوں میں السلام علیکم کہنے کا اور مصافحہ کرنے کا رواج نہیں ہے، یہ دونوں باتیں ثواب کی ہیں، اِن کو پھیلانا چاہیے۔ (بہشتی زیور کامل:۵؍۲۹۴) اپنے بچوں کو ’’السلام علیکم‘‘ کا عادی بنائیں مغربی ممالک میں انگریز ملاقات کے وقت گڈ مارننگ، گڈ ایو ننگ اور گڈ نائٹ اور ٹاٹا بائی بائی بولتے ہیں اور ہاتھ ہلاتے ہیں اور اپنے بچوں کو یہی تعلیم دیتے ہیں، یہ وبا ہمارے ملک میں بھی آئی؛چناں چہ ہمارے ملک کے غیر مسلموں نے بھی بخوشی اسے قبول کرلیا، اُن کی دیکھا دیکھی بہت سے مسلم گھرانوں کے بچوں؛ بلکہ بڑوں میں بھی اِس کا رواج ہوگیا؛ بلکہ گھر کا کوئی شخص باہر جاتا ہے تو عورتیں بچوں کو تعلیم دیتی ہیں اور کہتی ہیں بیٹے پاپا کو ٹا ٹا کرو، اگر اُس نے نہیں کیاتو ہاتھ پکڑ کر Tata کرنے کا عادی بناتی ہیں، اگر کسی غیرت مند شخص نے کہا: کہ بچوں کو سلام سکھانا چاہیے تو جواب ملتا ہے ابھی بچہ ہے، بعد میں سب سیکھ جائے گا، یاد رکھیں یہ ایک بھیانک غلطی ہے اور بچے کے ساتھ محبت نہیں؛ بلکہ اُس کی اسلامی زندگی کے ساتھ کھلواڑ ہے، درخت جب ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے تو اُس کی شاخوں کو موڑنا آسان ہوتا ہے؛ کیوں کہ اُس میں لچک ہوتی ہے؛ لیکن جب تناور اور مضبوط درخت بن جاتا ہے تو اس کو موڑ نا، توڑنے کے مترادف ہوتا ہے، بچے کا ذہن پریس مشین جیسا ہوتا ہے، بچپن میں جو چھاپیں گے وہی چھپے گا، دعا چھاپیں گے تو دعا اور گالی چھاپیں گے تو گالی چھپے گی، آج Tata اور Buy buy چھاپیں گے تو کل السلام علیکم کیسے زبان سے نکلے گا؛ اِس لیے ماؤں بہنوں اور گھر کے بڑے لوگوں کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، زمانے سے مرعوب نہ ہوں ،اسلامی تہذیب ہی آپ کی کامیابی کی ضامن ہے، دنیا کی ترقی اور دنیا کی نام نہاد تہذیب، آخرت میں بھی ترقی اورتہذیب شمار ہو، ضروری نہیں، وہاں تہذیب واخلاق کی صحت کا پیمانہ، اخلاقِ نبوی، تہذیب نبوی ہوں گے اور بس، پیچھے حدیث گذری ہے کہ السلام علیکم حضرت آدم ؑنے کہا تھا: اور اللہ نے کہا تھا کہ یہی آپ کی اور آپ کی اولاد کا سلام ہے، معلوم ہوا کہ سلام عطیہ خداوندی ہے، کیا عطیہ خداوندی کے برابر کوئی اور عطیہ ہوسکتا ہے، اور اگر بات غیروں کی تہذیب کی ہو تو اسلامی تہذیب کے مقابلہ میں اُن کی قباحت وشناعت دو چند ہوجاتی ہے،مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں: