اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت رفاعی ؒ کا ایک واقعہ سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ جو حضرت غوث پاک کے معاصر ہیں، اُن کا واقعہ ہے کہ جب مزار شریف پر حاضر ہوئے تو عرض کیا: السلام علیک یاجدي (دادا جان السلام علیک) جواب مسموع ہوا وعلیک السلام یا ولدي (بیٹا! وعلیک السلام)اِس پر اُن کو وجد ہوا اور بے اختیار یہ اشعار زبان پر جاری ہوئے۔ في حالۃ البُعدِ رُوحي کنتُ أرسلہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تقبل الأرض عني وہي نائبتي فہذہ نوبۃُ الأشباح قد حضر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تْفا مدُد یمینَک کي تحظی بہا شَفتي ترجمہ: جب ہم دور تھے تو اپنی روح کو اپنا نائب بنا کربھیج دیاکرتے تھے، وہ روضۂ اقدسﷺ پر زمین بوس ہوجایا کرتی تھی، اب جسم کی باری آئی ہے، ذرا اپنے دست مبارک کو بڑھائیے؛ تاکہ میرا لب اس سے بہرہ ورہ ہوسکے اور ہونٹوں کو یہ دولت نصیب ہوجائے۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے نقل کیا ہے کہ روضۂ منورہ کے اندر سے ایک نہایت نورانی ہاتھ ظاہر ہوا (جس کے روبر وآفتاب بھی ماند تھا)وہ حضورﷺ کا دست مبارک تھا، انہوں نے دوڑ کر بوسہ دیا اور بے ہوش ہوگئے، بس ہاتھ غائب ہوگیا مگر کیفیت یہ ہوئی کہ تمام مسجد نبویﷺ میں نور ہی نور پھیل گیا، ایسا نور کہ اس کے سامنے آفتاب کی بھی حقیقت نہ تھی اور واقعی آفتاب کی، اُس نور کے سامنے کیا حقیقت ہوتی۔ ایک بزرگ سے جو کہ اس واقعہ میں حاضر تھے کسی نے پوچھا کہ آپ کو رشک تو بہت ہوا ہوگا، فرمایا ہم تو کیا اس وقت ملائکہ کو بھی رشک تھا کہ ہمیں بھی یہ دولت نصیب ہوتی۔ (خطبات حکیم الامت۴:۱؍۲۰۲، مجمع البحور بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ:۳؍۴۴) سلام پڑھیں بھی اور بھیجیں بھی جیسے ہم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں، اور کبھی سلام کہلواتے ہیں کہ فلاں سے میرا سلام کہہ دینا، ایسے ہی حضورﷺ کو سلام بھیجنا چاہیے مثلاً کوئی حاجی حج کرنے جارہا ہے، اُس سے درخواست کریں کہ اس ناچیز کا ہدیہ سلام حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیجیے گا، اکابر کا یہ معمول تھا اور جو شخص یہ سلام قبول کرلے اس کے ذمہ ضروری ہے کہ وہ سلام حضورﷺ کی خدمت میں عرض کرے، یہ ایک امانت ہے، علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: ہکذا علیہ تبلیغ السلام إلی حضرۃ النبيﷺ عن الذي أمرہ بہ۔ (شامی:۹؍۵۹۵) ایک حکایت: حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ جو جلیل القدر تابعی اور خلیفۂ راشد ہیں، شام سے مدینہ منورہ کو خاص قاصد بھیجتے تھے کہ ان کی طرف سے روضہ شریف پر حاضر ہو کر سلام عرض کرے۔ (شعب الایمان، رقم:۳۸۶۹)