اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اندیشہ ہو کہ ترکِ سلام کی وجہ سے عداوت بڑھ جائے گی اور اصلاح کا راستہ مسدود ہوجائے گا، اور سلام کا تعلق رکھنے کی وجہ سے موانست بڑھے گی یا شراب چھوڑنے کی دعوت دینے کا موقع باقی رہے گا، تو بہتر ہے کہ اسے سلام کرے؛ کیوں کہ اصل مقصد اصلاح ہے؛ نہ کہ اہانت، اور نہی عن المنکر ہے نہ کہ ضِد وعناد۔(کتاب الفتاوی:۶؍۱۲۲) بدعتی اور فاسق کو سلام کرنا بدعتی اورعلانیہ فسق میں مبتلا شخص کو سلام کرناجائز نہیں، ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرنا، ٹخنے ڈھانکنا، ٹی وی دیکھنا، تصویریں بنانا، رکھنا، عورتوں کا شریعت کے مطابق پردہ نہ کرنا، حرام کھانا، بینک انشورنس وغیرہ سودی اداروں کی ملازمت، غیبت کرنا یہ سب علانیہ بغاوتیں ہیں جو شخص ان کا ارتکاب کرتا رہتا ہے جب تک وہ ان گناہوں سے توبہ کا اعلان نہ کرے اسے سلام کرناجائز نہیں؛ البتہ اگر کسی فاسق سے تعارف اور جان پہچان ہے تو سلام کرناجائز ہے؛ اِس لیے کہ ایسی صورت میں سلام نہ کرنے میں کبر کا گمان ہوسکتاہے، نیز اسے دین اور دین داروں سے مزید مُتَنَفِّر کرنے کا باعث ہے، جواب دینا بہر حال ضروری ہے۔(احسن ا لفتاوی:۸؍۱۳۵) تاش کھیلنے والے کو سلام کرنا چوسر وغیرہ کھیلنے والوں کو سلام کرنے کی امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کہ ان کو سلام کرلیا جاوے اِس نیت سے کہ جتنی دیر بھی اُن کی توجہ اِس معصیت (کھیل) سے ہٹ کر دوسری طرف منتقل ہوجائے، اچھا ہے۔ ویسلم علی قوم في معصیۃ وعلی من یلعب بالشطرنج، ناویاً أن یشغلہم عما ہم فیہ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ، وکرہ عندہما تحقیرا لہم(شامی:۹؍۵۹۵، محمودیہ:۱۹؍۱۰۹) قال یزید بن أبيحبیب: لو مررتُ علی قوم یلعبون بالشطرنج ما سلمتُ علیہم، وکان سعید بن جبیر إذا مرَّ علی أصحاب النرد لم یُسلم علیہم۔ (شرح ابن بطال: ۷؍۳۷) مظلوم ظالم کے سلام کا جواب دے سوال (۹۱۶۷) اگر ظالم اپنے مظلوم کو سلام کرے اور مظلوم بوجہ اپنے رنج وغصہ ونفرت کے جواب نہ دے، کیا مظلوم شرعا گنہ گار ہے اور کیا مظلوم پر ظالم بدبخت کے سلام کا جواب دینا شرعا واجب ہے اور کیا شریعت اجازت دیتی ہے کہ مظلوم اپنے ظالم کے سلام کو جوتی سے ٹھکرا دے۔ الجواب حامداً ومصلیاً: سلام شعائر اسلام اور حقِ مسلم ہے اور جواب دینا واجب ہے، مظلوم کو چاہیے کہ جوابِ سلام کو ترک کرکے اپنے ذخیرہ آخرت کو نقصان نہ پہنچائے اور ترکِ واجب کا وبال اپنے سر نہ رکھے اور اُس کو بدبخت یا کم بخت یا اور کوئی ایسا کلمہ نہ کہے جس سے انتقام ہوجائے، ممکن ہے کہ جلے ہوئے دل سے نکلا ہوا کوئی کلمہ اتنا سخت ہو کہ ظالم کے ظلم کے مساوی ہوجائے یااُس سے بھی بڑھ جائے وہاں ہر چیز کا وزن ہوگا پھر سنت اور شعار اور حق مسلم کو جوتی سے ٹھکرا دینا ،نہایت خطرناک ہے اِس کا تو کبھی تصور بھی ذہن میں نہیں آنا چاہیے ۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔ (محمودیہ:۱۹؍۱۰۹)