اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر فرمایا: حدیث میں آیا ہے، إن من تمام تحیاتکم، المصافحۃ کہ مصافحہ تتمۂ سلام ہے، اور سلام کے لیے کچھ قواعد مقرر ہیں، تو مصافحہ کے لیے جو کہ اس کاتابع ہے بطریق اولیٰ ہوں گے مثلا : لکھا ہے کہ اذان کے وقت سلام نہ کرو، کھانا کھاتے وقت سلام نہ کرو اور بھی مواقع ہیں جن کا ما حصل یہ ہے کہ مشغولی کے وقت سلام نہیں کرنا چاہیے؛ اِس سے معلوم ہوا کہ مشغولی کے وقت مصافحہ بھی نہیں کرنا چاہیے، بہت سے علماء تو وداعی مصافحہ کو بھی بدعت کہتے ہیں؛ مگر خیر ہمارے علماء جائز کہتے ہیں؛ چوں کہ وداع کے وقت سلام تو نصوص سے ثابت ہے اور مصافحہ متممِ سلام ہے تو مصافحہ بھی درست ہوا؛ مگر ہر چیز کی حد ہوتی ہے…یہاں مصافحہ کی کوئی حد ہی نہیں ہے، استنجے کے بعد بھی مصافحہ، اٹھنے کے بعد بھی مصافحہ، بیٹھنے کے بعد بھی مصافحہ، اِسی واسطے میں نے یہ ترکیب کی تھی کہ کمرہ میں بیٹھ کر کواڑ بند کر لیتا تھا؛ اِس سے بہتوں کی دل شکنی ہوئی ہوگی؛ مگر کیا کیا جائے اپناتحمل بھی تودیکھنا چاہیے، میری طبیعت کس قدر ہے، یہ سفر میں نے بغرض آسائش کیا ہے اور جب مصافحہ کی بھر مار ہوگی تو آسائش کہاں؟ نیز تعلیم کی بھی ضرورت ہے، کسی کے کان میں یہ پڑا ہی نہیں کہ ایسا مصافحہ نہ چاہیے؛ مصیبت یہ ہے کہ آج کل کے مشائخ بجائے اِس کے کہ اِس سے منع کریں اور اِس کی کوشش کرتے ہیں ؛ کیوں کہ اِس سے اُن کی گرم بازاری ہوتی ہے، اِس واسطے میں نے اِس دل شکنی کو گوارا کیا کہ یہ بات یاد تو رہے گی۔(خطبات حکیم الامت:۲۸؍۵۴۲) اشکال وجواب یہاں ایک طالب علمانہ اشکال ہو سکتا ہے کہ کسی بزرگ ہستی کی آمد پر مصافحہ کی بھر مار ازراہِ محبت ہوتی ہے؟ اس بارے میں حضرت حکیم الامتؒ فرماتے ہیں: محبت کی بھی حد ہونی چاہیے یہ نہیں کہ اپنا شوق پورا کرنے کے لیے دوسرے کی تکلیف کابھی خیال نہ کیا جائے، متنبی کہتا ہے: وأسکت کي ما لا یکون جواب یعنی میں خاموش رہتا ہوں؛ تاکہ محبوب کو جواب دینے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے، مصیبت یہ ہے کہ دین صرف نماز روزہ کا نام سمجھ لیا، دین کا ایک شعبہ یہ بھی تو ہے جو حدیث میں ہے وأحب لأخیک المسلم ماتحب لنفسک، تکن مسلماً یعنی دوسرے مسلمان کے لیے وہی بات پسند کرو جو اپنے واسطے کرتے ہو، تب مسلمان ہوگے جب اپنی تکلیف گوارا نہیں ہوتی، تو دوسرے کی تکلیف کیوں گوارا کی جائے؟ اِس کی تعلیم سے حدیثیں بھری پڑی ہیں کہ اپنے کسی فعل سے بھی دوسرے کو تکلیف نہ دی جائے، نہ قولاً نہ فعلاً۔(خطبات حکیم الامت:۲۸؍۵۴۴) دوسری جگہ ہے: ادب کے معنی لوگوں نے بار بار جھکنے، کھڑے ہونے اور آداب وتسلیمات لے لیے ہیں، حقیقت میں مودّب تھے تو صحابہ تھے؛ مگر نہ اُن میں بار بار اٹھنا تھا، نہ بار بار جھکنا تھا، نہ چبا چبا کر باتیں کرنا تھا؛ لیکن موقع پر دیکھیے کہ جان دینے میں بھی تأمل نہ تھا،زیادہ صورتِ تعظیم وتکریم کو اختیار کرنا،اِس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ شخص وقت پر کچھ کام نہ دے گا، نیز ایسی تعظیم سے دوسرے کا ضرر ہوتا ہے، اُس کے اندر عُجب پیدا ہوجاتا ہے۔(ایضاً:۲۸؍۵۴۵) آگے اپنی بات مدلل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عنوان یہ ہے۔