اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضورﷺ کا قیام کو ناپسند کرنااسی بنیاد پر تھا کہ کہیں بعد میں غلو نہ پیدا ہوجائے۔ حضرت تھانویؒ نے اصول کی بات لکھی ہے: پیر پر ہاتھ لگا کر چہرہ پر ملنا جائز ہے یا نہیں یہ پوچھا گیا تو جواب دیا: اور ظاہراً قواعد سے تفصیل معلوم ہوتی ہے کہ اگر ممسوح (جس کے پیر کو چھو کر چہرے پر ملا جائے) متبرک متقی ہو اور ماسح متبع سنت، صحیح العقیدہ ہو توجائز ہے ورنہ نہیں۔(امداد الفتاویٰ:۴؍۲۷۹) حضرت گنگوہیؒ لکھتے ہیں: بوسہ دینا بزرگوں، اہل سنت کے قدم کو، اگر چہ درست ہے؛مگر اس کا کرنا اولیٰ نہیں کہ عوام اس سے فتنہ میں پڑ جاتے ہیں؛ لہٰذا اس کا ترک کرنا چاہیے۔(۲) (فتاوی رشیدیہ:۱۵۰) کیا طلبہ استاذ کی آمد پر کھڑے ہوسکتے ہیں؟ استاذ کی آمد پر طلبہ کا کھڑے ہوجانا، جائز ہے یا ناجائز، یہ رواج عموماً بعض اسکول وکالج میں پایا جاتا ہے کہ ٹیچر، پروفیسر اور استاذ کی آمد پر سارے طلبہ، اسٹوڈینٹس کھڑے ہوجاتے ہیں، جب استاذ بیٹھ جاتا ہے تو طلبہ بھی بیٹھ جاتے ہیں، یہ طرز عمل مناسب نہیں، مسلمان بچوں کو اِس سے پرہیز کرنا چاہیے اور اگر ایسا رواج کسی دینی درسگاہ میں ہو تو اصلاح کرنی چاہیے، تربیت صرف سلام کی دی جائے؛ چناں چہ یہ روایت گذر چکی ہے کہ حضورﷺ تشریف لائے تو صحابہ کھڑے ہوگئے تو آپ نے منع فرمایا اور اسے عجمیوں کاطریقہ بتایا یعنی اسلامی طریقہ نہیں ہے، تاہم کہیں دفعِ ضرر کے (۱) الدر علی ھامش الرد:۵۵۰۔ (۲) یہ اصول ہر جگہ پیش نظر رہے گا۔ لیے گنجائش ہے۔ کتاب الفتاوی میں ہے: اِس صراحت سے ظاہر ہے کہ احترام میں کھڑا ہونا بہتر نہیں، ہاں اگر کوئی شخص ایسا فرعون مزاج ہو کہ اُس کے احترام میں کھڑے نہ ہونے والے عتاب وابتلاء کا شکار ہوجاتے ہوں تو ضرر سے بچنے کے لیے کھڑے ہونے میں قباحت نہیں۔(۱؍۴۲۹) والد کے پیرچومنا - -- جائز یا ناجائز اصل مسئلہ تقبیل میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ بلکہ اختلاف اس میں ہے کہ جس شخص کی قدم بوسی، دست بوسی کی جائے اُس کے لیے بھی یہ جائز ہے کہ اپنے ہاتھ پاؤں پھیلا کر لوگوں کو اِس کا موقع دے اور اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اِس صورت میں اگرحقیقۃً عُجب وتکبر نہ بھی ہوتو صورۃً ایک متکبرانہ فعل ہے، جس سے تکبر پیدا ہوجانے کا احتمالِ غالب ہے؛اِس لیے بعض فقہاء نے اِس خطرہ کی بنا پر مکروہ قرار دیا، بعض نے اصل فعل کے جواز پر نظر کر کے جائز قرار دیا؛ چناں چہ حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں: پس صحیح، جواز تقبیل قدم، فی نفسہ ہے اور فقہاء کے منع کو عارض مفسدہ پر محمول کیا جائے گا۔(امداد الفتاویٰ:۵؍۳۴۵) ماں باپ یقینا قابل تعظیم ہیں؛ لیکن اُن کی تعظیم وتکریم، اسلامی قانون کے دائرے