اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسلام کی آمد کے بعد دوسری اقوام میں بھی اشاروں سے سلام کا رواج عموماً ختم ہوگیا اور سلام کے الفاظ کہنے کا رواج چل پڑا؛چناں چہ مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: دنیا کی تمام متمدن قوموں اور گروہوں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت یا جذبۂ اکرام وخیر اندیشی کا اظہار کرنے اور مخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے، ہمارے ملک ہندوستان میں ہمارے برادران وطن ہندو، ملاقات کے وقت ’’نمستے‘‘ کچھ پرانے قسم کے کم پڑھے لکھوں کو ’’رام رام‘‘ کہتے ہوئے بھی سنا ہے۔(۱) یورپ کے لوگوں میں صبح کی ملاقات کے وقت’’ گڈ مارننگ‘‘ (اچھی صبح) اور شام کی ملاقات کے وقت ’’گڈ ایوننگ‘‘ (اچھی شام) اور رات کی ملاقات میں ’’گڈ نائٹ‘‘ (اچھی رات) وغیرہ کہنے کا رواج ہے، رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت عربوں میں اسی طرح کے کلمات أنعم صباحاًوغیرہ ملاقات کے وقت کہنے کا رواج تھا۔(معارف الحدیث :۶؍۱۴۹-۱۵۰) اسلامی سلام کا آغاز حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے: کہ جب اللہ تعالیٰ نے (۱) اسی طرح ’’نمشکار‘‘ ’’پرنام‘‘ اور جے رام جی کا بھی رواج ہے:مؤلف حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو اُن سے کہا: اذ ہَبْ فسلّم علی أولئک نفر من الملائکۃ جلوس، فاستمع ما یحیونک؛ فإنہا تحیتک وتحیۃ ذریتک، فقال: السلام علیکم، فقالوا: السلام علیک ورحمۃ اللہ، فزادوہ: ورحمۃ اللہ۔ یعنی جاؤ اور فرشتوں کی بیٹھی ہوئی اس جماعت کو سلام کرو اورسنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتی ہے وہ(جو جواب دے گی) وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا جوابِ سلام ہوگا؛ چناں چہ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام گئے اور کہا: ’’السلام علیکم‘‘ فرشتوں نے جواب دیا ’’السلام علیک ورحمۃ اللہ‘‘ (حضورﷺ نے فرمایا) فرشتوں نے حضرت آدم کے سلام کے جواب میں ’’ورحمۃ اللہ‘‘ کا اضافہ کیا۔(بخاری، رقم الحدیث: ۶۲۲۷، باب بدء السلام) دو حل طلب باتیں: اس حدیث میں دو باتیں حل طلب ہیں: پہلی بات: اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ ’’ان کو سلام کرو‘‘ تو کیا آدم علیہ السلام کو سلام کا طریقہ بتایا گیاتھا؟ جواب یہ ہے کہ ان کو سلام کے الفاظ نہیں بتائے گئے تھے؛ بلکہ یہ امر ان کی رائے اور اختیار پر چھوڑا گیا تھا؛ پس آدم علیہ السلام نے حق کو پالیا یعنی اللہ تعالیٰ کو جو الفاظ پسند تھے انہیں لفظوں سے آدم علیہ السلام نے سلام کیا۔(۱) دوسری بات: اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ ’’وہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا دعا وسلام کاطریقہ ہوگا‘‘ اس کاکیا مطلب ہے؟ جواب: یہ ارشاد تشریعی ہے یعنی یہی وجوبی طور پر حکم خداوندی ہے، رہا یہ سوال کہ حضرت آدم اور ملائکہ جس طرح دعا وسلام کریں گے وہ حکم خداوندی کیسے ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ طریقہ اللہ ہی الہام فرمائیں