اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گئی ہے؛ مگر صاحبِ خانہ یا تو ایسی حالت میں ہے کہ جواب نہیں دے سکتا مثلا: نماز پڑھ رہا ہے یا بیت الخلاء میں ہے یا غسل کررہا ہے یا پھر اُس کو اِس وقت ملنا منظور نہیں؛ پس ایسی حالت میں جمے رہنا اور مسلسل دستک دیتے رہنا مصلحت کے خلاف ہے؛ بلکہ باعثِ ایذا ہے، جس سے بچنا واجب ہے۔ (معارف القرآن: ۶؍۳۹۲) علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: جب کوئی دوسرے کے گھر آئے تواُسے داخل ہونے کے لیے تین مرتبہ اجازت مانگنا چاہیے،ہر بار یوں کہے: السلام علیکم، کیا اندر آسکتا ہوں؟ اور ہر مرتبہ اتنی دیر رکے کہ کھاناکھانے والا کھانے سے ،وضو کرنے والا وضو سے اور نماز پڑھنے والا چار رکعت نماز پڑھ کر فارغ ہوجائے، پھر اگر اجازت ملے تو داخل ہو، ورنہ حِقدوعداوت کا خیال بھی نہ لائے اور واپس چلا جائے، اور جس نے کسی کو بلانے کے لیے بھیجا ہو جب وہ آئے تو اجازت ضروری نہیں ہے۔(رد المحتار:۹؍۵۹۲) خالی گھر میں داخل ہو تو سلام کیسے کرے؟ اگر کوئی ایسے گھر میں یا ایسی جگہ میں آئے، جہاں کوئی شخص موجود نہیں ہے تو یوں سلام کرنا چاہیے: السلامُ عَلَینَا وعَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ؛کیوں کہ وہاں فرشتے او رنیک قسم کے جِنّ ہوتے ہیں، یہ سلام انہیں کو ہوگا؛ اور حقیقت میں یہ ایک دعا ہے، جیسا کہ تشہد میں ہے، یہ سلام تحیہ نہیں ہے؛اِسی لیے اِس میں لفظ ِخطاب نہیں ہے(۱) اور اگر ایسے گھر میں جانے کی نوبت آئی، جہاں سب غیر مسلم ہیں تو وہاں بھی السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین کہہ سکتے ہیں۔(أوجز: ۱۷؍۲۰۶) چھُپ کر مت بیٹھیے کسی کے پاس جاؤ تو سلام سے یا کلام سے ، یا روبرو بیٹھنے سے؛ غرض کسی طرح سے اُس کو اپنے آنے کی خبر دو اور بدون اطلاع کے آڑ میں ایسی جگہ مت بیٹھو کہ اُس کو تمہارے آنے کی خبر نہ ہو؛ کیوں کہ شاید وہ کوئی ایسی بات کرنا چاہے جس پر تم کو مُطَّلع نہ کرنا چاہے، تو بدون اُس کی رضا کے اُس کے راز پر مُطَّلَع ہونا بری بات ہے۔(آداب المعاشرت: ۴۶۷، مع اصلاحی نصاب) (۱) رد المحتار:۹؍۵۹۷)