اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ماثورہے؛ پس صرف سلام یا تسلیم پر ا کتفا کرنے والاثوابِ سنت سے محروم رہے گا (۳) حرام: وہ لفظ جس میں تعظیم ممنوعہ نکلے جیسے بندگی (۴) بدعت یا مشابہت بہ کفار: پس جو لفظ بنفسہ گناہ کے معنوں میں شامل نہیں ،بدعت ضالہ ہیں جیسے کورنش، مجرا، آداب، صبحک اللہ، مساک اللہ جیسا کہ ابوداؤد نے عمران بن حصینؓ سے روایت کی اور جو لفظ کفار کی پیروی سے اختیار کیے جائیں تو یہ گناہ بالائے گناہ ہے۔(فتاویٰ رحیمیہ: ۱۰؍۱۳۱، کتاب الخطر والاباحۃ) مسنون سلام ’’السلام علیکم‘‘سے ہی ادا ہوگا آداب عرض یا اِسی قسم کے دوسرے الفاظ، شرعی اسلامی تحیہ کے قائم مقام نہیں ہوں گے، اور سنتِ سلام ادا نہ ہوگی۔(کفایت المفتی:۹؍۹۰) خط وکتابت کرتے وقت سلام مسنون لکھنا خط وکتابت میں بھی السلام علیکم لکھنا چاہیے، زبان سے السلام علیکم کہہ کر ’’سلام مسنون‘‘ لکھ دیا تو بھی حرج نہیں ہے،حاصل یہ کہ سلام مسنون لکھ سکتے ہیں(۱) ؛ مگر السلام علیکم لکھنا زیادہ بہتر ہے۔(فتاویٰ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند: ۷۸۷۵) صباح الخیر کہنا ابتداء سلام میں صباح الخیر یا مساء الخیر کہنا اسلامی سلام نہیں ہے، اسی طرح مرحبا وغیرہ کہنے کا حکم ہے، ہاں السلام علیکم کے بعد یہ کلمات کہہ سکتے ہیں۔ لا یقوم مقام السلام غیرہ من صیغ التحیۃ کصباح الخیر أو مرحبا أو غیر ذلک۔ (نزھۃ المتقین:۱؍۵۷۶) ایک حجام اور رئیس کی حکایت کسی قصبہ میں ایک حجام نے ایک رئیس صاحب کو ’’السلام علیکم‘‘ کہہ دیا تھا، تو رئیس صاحب نے اٹھ کر ایک چپت رسید کیا اور کہا کہ: تو بھی اِس قابل ہوگیا ہے کہ ہم کو ’’السلام علیکم‘‘کہے، ’’حضرت سلامت‘‘ کہا کر، جب نماز کا وقت ہوا تو اُس نے نماز پڑھی او رختم نماز پر (۱) لیکن’’ سلام مسنون‘‘ لکھا ہوا ہوتو اس کا جواب واجب نہ ہوگا؛ بل کہ جواب اُسی وقت واجب ہوگا جب اصل صیغہ ٔ سلام لکھا ہوا ہو اور شاید سلام مسنون اسی لیے لکھنے کا رواج ہو ا کہ پڑھنے والے کے ذمہ جواب دینا واجب نہ رہے،گویا سہولت کی بات ہے۔ ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کے بجائے یوں پکار کر کہا: ’’حضرت سلامت ورحمۃ اللہ‘‘ لوگوں نے پوچھا یہ کیا حرکت ہے؟ کہنے لگا آج میں نے فلاں صاحب کو ’’السلام علیکم‘‘ کہا تھا تو ایک چپت لگا، مجھے ڈر ہوا کہ نماز میں فرشتوں کو بھی سلام کیا جاتا ہے،اور اُن میں حضرت عزرائیل ؑبھی ہیں؛ اگر کبھی وہ خفا ہوگئے تو میرا دم ہی نکال دیں گے۔(تسہیل المواعظ: ۲؍۱۰۰، اہتمام دین کی ضرورت) دوسری جگہ حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں: خیر اگر کوئی سلام کے لفظ سے بہت ہی بُرا مانے تو اُس کو ’’حضرت سلامت‘‘ یا ’’تسلیم‘‘ یا تسلیمات کہنے تک گنجائش معلوم ہوتی ہے۔(۱)(فروع الایمان مع اصلاحی نصاب: ۴۲۱) سلام کی جگہ’’ یا مُرشِدَ اللہ‘‘ کہنا