اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چھوڑ ا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے؛اِس لیے ہم نے قرآنی تعلیم کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفا کیا، اِس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اِس حدیث سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ الفاظِ سلام کی زیادتی صرف تین کلمات تک مسنون ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ سلام میں تین کلمہ کہنے والے کے جواب میں اگر صرف ایک کلمہ (وعلیک یا وعلیکم) کہہ دیا جائے تو وہ بھی ادا بالمثل کے حکم میں ، حکم قرآنی ’’أو ردوہا‘‘ کی تعمیل کے لیے کافی ہے۔ (خلاصہ معارف القرآن: ۲؍۵۰۳) ایک شُبہ اور اُس کا حل مذکورہ آیت سے معلوم ہورہا ہے کہ جوابِ سلام کا سلام سے بڑھ کر یا برابر ہونا چاہیے، جس سے ثابت ہو اکہ جوابِ سلام، سلام سے کم نہیں ہونا چاہیے؛ حالاں کہ فقہاء نے اِس کی اجازت دی ہے، مثلاً: سلام کرنے والے نے، السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا تو جواب میں وعلیکم السلام کہہ دینا گو افضل نہیں؛ لیکن جائز ہے، تفسیر انوار القرآن میں ہے: اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ آیت میں اکمل اور کامل صورت کو بیان کیا گیا ہے، آیت میں لفظ ’’أو‘‘ اختیار کے لیے اِسی اعتبار سے ہے اور امر سے جو واجب ہونا سمجھ میں آرہا ہے وہ نفسِ سلام کے لحاظ سے ہے؛ غرض کہ مُقَیَّد تو واجب ہے اور قید اختیاری ہے۔(انوار القرآن: ۲؍۴۲۳) سلام اور جوابِ سلام میں’’وبرکاتہ‘‘ کے بعد’’ومغفرتہ‘‘ وغیرہ کا اضافہ جائز یا ناجائز --- ایک تحقیقی بحث اگر بات سنت کی کی جائے تو مسنون یہی ہے کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پر اضافہ نہ کیا جائے ’’وبرکاتہ‘‘ سلام کی اِنتہا ہے اور اِس پر اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔ (۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یا عائشۃ! ہذا جبرئیل یُقرأ علیکِ السلامَ، فقلت: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، فذہبت تزید، فقال النبيﷺ: إلی ہذا انتہی السلام، فقال: (رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم أہل البیت) اے عائشہ! یہ جبرئیل تھے،تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے کہا : وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس پر اضافہ کرنے لگیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: سلام کی حد یہیں تک ہے، پھر آپ نے (مذکورہ آیت) پڑھی (اللہ کی رحمت اور برکات تم پر ہوں اے اہل بیت!) (بخاری، رقم: ۳۰۴۵، بدء الخلق)