اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرتا ہے اور وہاں بیٹھتا ہے تو مُردہ اُس سے اُنسِیَّت حاصل کرتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ واپس آجائے۔ (۳) حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں: کہ جب کوئی شخص کسی ایسی قبر کے پاس سے گذرتا ہے جس کو وہ پہچانتا ہے اور سلام کرتا تو مردہ جواب دیتا ہے۔ (۴) … حضرت ابو رزینؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا مردے سلام سنتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ہاں سنتے ہیں؛ لیکن ایسا جواب نہیں دے سکتے کہ تم سن سکو۔ مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے( شرح الصدورللسیوطی:۳؍۱۷۷، باب زیارۃ القبور) نتیجہ: اِن تمام روایتوں سے معلوم ہوا کہ ُمردوں کو سلام کرنا مشروع ہے، اور وہ سلام سنتے ہیںجواب دیتے ہیں؛ اگر وہ سلام نہیں سنتے اور نہیں سمجھتے، تو انہیں سلام کرنے کا حکم ہی نہیں دیا جاتا، یہ الگ بات ہے کہ ُمردوں کا جواب عموماً انسان سنتا نہیں ہے۔(تفسیر ابن کثیر:۳؍۴۴۰) مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں: آثار اور اربابِ کشف سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے؛ اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ برزخ میں لوگوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں؛ کچھ ُمردے ہر سلام وکلام کو سنتے ہیں کچھ مردے، بلا تعیینِ وقت، صرف سلام سنتے ہیں، کچھ ُمردے سلام صرف شبِ جمعہ اور اُس کی صبح میں سنتے ہیں، کچھ مردے جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کو سلام سنتے ہیں، اِسی طرح جوابِ سلام کے سلسلے میں بھی فرق ہے، کچھ مردے جواب اِس طرح دیتے ہیں کہ سلام کرنے والا سن لیتا ہے، اور کچھ مردوں کے جواب، زندہ شخص نہیں سن پاتا ہے۔(احکام القرآن:۳؍۱۷۱) اِس کی مزید تفصیل اُن کی کتاب معارف القرآن میں ہے: اِس سے بھی یہ ثابت ہوا کہ جب کوئی شخص اپنے مردہ مسلمان بھائی کی قبرپر جا کر سلام کرتا ہے تو وہ مردہ اُس کے سلام کو سنتا ہے اور جواب دیتا ہے ،اور اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس وقت اُس کی روح اِس دنیا میں واپس بھیج دیتے ہیں، اِس سے دو باتیں ثابت ہوئیں: اول یہ کہ مردے سن سکتے ہیں، دوسرے یہ کہ اُن کا سننااورہمارا سنانا ہمارے اختیار میں نہیں؛البتہ اللہ تعالیٰ جب چاہیں سنادیں، جب نہ چاہیں نہ سنائیں، مسلمان کے سلام کرنے کے وقت تو اِس حدیث نے بتلادیا :کہ حق تعالیٰ مردہ کی روح واپس لا کر اُس کو سلام کا جواب دینے کی بھی قدرت دیتے ہیں، باقی حالات وکلمات کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ مردہ اُن کوسنے گا یا نہیں؛ اِسی لیے امام غزالیؒ اور علامہ سُبکیؒ وغیرہ کی تحقیق یہ ہے کہ: اتنی بات تو احادیث صحیحہ او رقرآن کی آیت مذکورہ سے ثابت ہے کہ بعض اوقات میں مردے زندوں کا کلام سنتے ہیں؛ لیکن یہ ثابت نہیں کہ ہر مردہ ہر حال میں ہر شخص کے کلام کو ضرور سنتا ہے، اِسی طرح آیات وروایات کی تطبیق بھی ہوجاتی ہے، ہوسکتا ہے کہ مردے ایک وقت میں اَحیاء کے کلام کو سن سکیں دوسرے وقت نہ سن سکیں، یہ بھی ممکن ہے کہ بعض کے کلام کو سنیں بعض کے کلام کو نہ سنیں، یا بعض مردے سنیں بعض نہ سنیں؛ کیوں کہ سورۂ نمل، سورۂ روم، سورۂ فاطر کی آیات سے بھی یہ ثابت ہے کہ مردوں کو سنانا ہمارے اختیار میں نہیں؛بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں سنادیتے ہیں؛اِس لئے جن مواقع میںحدیث کی روایات صحیحہ سے سننا ثابت ہے ،وہاںسننے پر عقیدہ رکھا جائے اور جہاں