اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس سے منع فرما رکھا تھا۔ (اصلاح ظاہر، آداب العشیر:۵۳۷، مجموعہ خطبات حکیم الامت) دست بستہ کھڑا ہونا اگر کوئی شخص دین کے اعتبار سے قابلِ احترام ہواور اس کے لیے کھڑا ہواجائے تواِس کی گنجائش ہے،در مختارمیں ہے: یجوز بل یندب القیام تعظیما للقادم؛ البتہ دست بستہ کھڑا ہونا مناسب نہیں، کہ اِس میں نماز کی کیفیتِ قیام سے مشابہت ہے؛ گویا اس کیفیت میں عبادت اور بندگی کا ایہام ہوتا ہے، اور ایسی باتوں سے منع فرمایا گیا ہے، جس میں غیر اللہ کی نسبت سے عبادت کا اِیہام ہوتاہو۔ (کتاب الفتاویٰ: ۱؍۲۸۲) کسی کے شر اور ضرر سے بچنے کے لیے قیام -- ایک واقعہ علامہ شامیؒ نے عنایہ کے حوالے سے شیخ حکیم ابوالقاسمؒ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے: جب اُن کے پاس کوئی مالدار دنیا دار شخص ملنے کے لیے آتا تو شیخ کھڑے ہوکر اُس کا اِعزاز واِکرام کرتے اور جب طلبہ کرام اور فقراء ومساکین آتے تواُن کے واسطے کھڑے نہیں ہوتے تھے، اُن سے اس کی وجہ معلوم کی گئی، کہنے لگے: الغني یتوقع مني التعظیم، فلوترکتہ لَأتضرریعنی یہ دنیادار لوگ مجھ سے تعظیم کی خواہش رکھتے ہیں، اگر میں کھڑا نہ ہوں تومجھے ضرر پہنچائیں گے تو میرا قیام، دفع مضرت کے لیے ہے، جلبِ منفعت کے لیے نہیں ہے اورجہاں تک فقراء اور طلبہ کی بات ہے وہ لوگ سلام کا جواب اور کچھ علمی مذاکرہ کی تڑپ لے کر آتے ہیں، سواُن کے ساتھ میرا معاملہ ویسا ہی ہوتاہے۔ (رد المحتار:۹؍۵۵۱) بزرگوں کے ہاتھ پیر چومنا اپنے پیر ومرشد سے ملاقات کے وقت ہاتھوں اور پیروں کا چومنا جائز ہے یا نہیں؟ مفتی محمود صاحبؒ لکھتے ہیں: جو مستحقِ تعظیم وتوقیر ہو اس کی ایسی تعظیم وتوقیر بجالانا جو خدا کے ساتھ مخصوص نہیں جائز ہے، یہ شرک نہیں ہے، کسی بزرگ پیر ومرشد کا ہاتھ چومنا جائز ہے، پَیر ِاس طرح نہ چومے جس سے سجدہ کی صورت ہوجائے۔(محمودیہ:۱۹؍۱۲۵) علامہ سندھیؒ نے تقبیل کے جواز کی انیس روایات کاتذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے: ان تمام روایات وواقعات سے ثابت ہوا کہ علماء ومشائخ اور دینی شرف رکھنے والے حضرات کی دست بوسی؛ بلکہ قدم بوسی بھی ،نیز پیشانی پر بوسہ دینا سنت اور تعامل صحابہ وتابعین سے بلا کسی نکیر کے ثابت ہے۔(بحوالہ جواہر الفقہ:۱؍۱۹۳) دوسری جگہ لکھتے ہیں: جو شخص واجب الاکرام ہو، اس کی قدم بوسی کی اجازت ہے؛ لیکن اعتقاد میں غلو نہ ہو اور سجدہ کی ہیئت نہ ہونے پائے۔(ایضا:۱۹؍۱۲۹) نوٹ: مولف عرض گزار ہے کہ علامہ حصکفیؒ نے قدم بوسی کے سلسلے میں دو قول نقل کئے ہیں: (طلب من عالم أو زاہد أن) یدفع إلیہ قدمہ و(یمکنہ من قدمہ لیقبلہ أجابہ، وقیل لا) یرخص فیہ۔(۱) ؛ چناں چہ جواز کا قول، وسعت اور فتوی ہے اور دوسرا قول ورع وتقویٰ ہے، چوں کہ عوام اس سلسلے میں غلو اختیار کرجاتے ہیں اور جس کی قدم بوسی کی جائے اس کے اَندر تکبر پیدا ہونے کا یقینی خطرہ رہتاہے؛ اِس لیے قدم بوسی کاترک ہی بہتر ہے،