اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱) اخیر کی تنیوں روایتیں شیخ سندھیؒ کا رسالہ الکرامۃ والتقبیل سے منقول ہیں، جس کاترجمہ جواہر الفقہ میں دست بوسی وقدم بوسی کے نام سے شائع ہوا ہے(۱؍۱۸۲)- اس سلسلے کی مزید روایتوں کے لیے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کیا جائے،اُس میں علامہ سندھیؒ نے اِس سلسلے کی انیس(۱۹) روایات جمع کی ہیں۔ نہیں ماننا چاہیے۔(الدر علی ھامش الرد: ۹؍۵۵۰) مسئلہ: مصافحہ کے بعد خود اپنا ہاتھ چومنا کچھ اصل نہیں رکھتا؛ بلکہ یہ جاہلوں کاطریقہ ہے اور مکروہ ہے۔(ایضا) مسئلہ: امراء سلطنت اور علماء ومشائخ، بزرگانِ دین وغیرہ کے سامنے سلام کرنے کے بعدیا پہلے، زمین بوسی کرنا حرام ہے، زمین بوسی کرنے والا اور اس زمین بوسی پر راضی ہونے والا دونوں ہی گنہ گار ہوتے ہیں، فقیہ ابو جعفرؒ کہتے ہیں: کہ سلطان وحاکم کے سامنے زمین بوسی اور سجدہ کرنے والاکافر ہوجاتا ہے؛ بشرطیکہ اس کی زمین بوسی وسجدہ، عبادت کی نیت سے ہو اور اگر تحیہ(سلام) کے طور پر ہوتوکافر نہیں ہوتا؛ لیکن آثم اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور بعض علماء کے نزدیک کسی بھی طرح کی نیت نہ ہونے کی صورت میں بھی کافر ہوجاتا ہے۔(الدر علی ھامش الرد: ۹؍۵۰۰، مظاہر حق:۵؍۳۶۸) مسئلہ: شہوت کے ساتھ مرد کا مرد کے کسی بھی حصے کو چومناحرام ہے، ایسے ہی شہوت کے ساتھ عورت کا عورت کے کسی بھی حصے کو چومناحرام ہے، خواہ ملاقات کے وقت ہو یا رخصتی کے وقت ہو۔ محبت اورشہوت میں یہ فرق ہے کہ محبت، پاک جذبے کا اظہار ہے اور شہوت ناپاک جذبے کا۔(الدر مع الرد:۵۴۶) مسئلہ: منہ کو چومنا جائز نہیں؛ بلکہ ہاتھ، سر اور پیشانی چومے۔(شرح السنہ:۱۲؍۲۹۳) مسئلہ: ہاتھ،پاؤں اور پیشانی کا چومنا طویل وقفے سے ہونا چاہیے،ایک ہی جگہ مقیم ہوں اور ملاقات ہو تو مسنون نہیں؛ بلکہ جائز بھی نہیں۔ بچوں کو چومنا - ثبوت، طریقہ اور جائز وناجائز کا معیار بچے پھول ہوتے ہیں، معصوم ہوتے ہیں، آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے اور روح وقلب کے تسکین کا ذریعہ ہوتے ہیں؛ اس لیے بچوں کو بوسہ سے پیار کرنے کی اجازت ہے؛ اگر چہ وہ اپنابچہ نہ ہو؛ بلکہ کسی اور کا ہو، بوسہ دینا، محبت وپیار سے چومنا جائزہے، یہی حکم بچی کا بھی ہے، بچے اور بچی کو چومنا، شفقت، رحمت اور لطف وکرم کے لیے ہوتا ہے؛ بلکہ بچوں کے ساتھ پیار اور لطف وشفقت کا معاملہ نہ کرنا،رحمتِ خداوندی سے محرومی کا سبب ہے، روایات پڑھیے: (۱) حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں: (ایک دن) نبی کریمﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا بوسہ لیا تو ایک صحابی اقرع ابن حابسؓ نے جو اُس وقت آپ کی خدمت میں حاضر تھے، کہا: کہ میرے دس بچے ہیں اور میں نے اُن میں سے کسی کا کبھی بوسہ نہیں لیا، رسول اکرمﷺ نے (یہ سن کر) ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری:۵۹۹۷)