اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جوابِ سلام میں ’’السلام‘‘کے معرفہ لانے کی وجہ: ایک علمی بحث مسنون سلام ابتداء ً السلام علیکم ہے اور سلامٌ علیکم بھی جائز ہے، یعنی ابتداء ً سلام کرنے میں سلام کو معرفہ اور نکرہ دونوں طرح لا سکتے ہیں؛ لیکن دونوں صورتوں میں جواب کے و قت وعلیکم ا لسلام کہا جاتا ہے، جواب میں سلام کونکرہ نہیں استعمال کرسکتے ، یعنی وعلیکم سلامٌ نہیں کہہ سکتے، اِس کی حکمت اور وجہ کیا ہے؟ ابن قیمؒ نے اِس سلسلے میں بڑی اچھی اور حکیمانہ گفتگو کی ہے، اہلِ علم کے لیے پیش ہے۔ جہاں سلام اور جوابِ سلام دونوں معرفہ ہوں وہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ لیکن جہاں سلام، سلامٌ علیکم سے ہوا ،اور جواب وعلیکم السلامسے دیا گیا وہاں یہ بحث ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتداء ً سلام ایک دعا ہے اور اہل عرب عموماً مقامِ دعا میں، الفاظِ دعا نکرہ استعمال کرتے ہیں، خواہ مرفوع ہوں یا منصوب جیسے ویلٌ لہ، خیبۃً بددعا کے لیے اور سقیاً، شکراً وغیرہ دعا کے طور پر اِس کے پیشِ نظر سلام کو بھی نکرہ لاسکتے ہیں، اور جواب میں معرفہ کی تخصیص اس لیے کی گئی ہے کہ معرفہ کی صورت میں، چار فائدے حاصل ہوتے ہیں(۱) الإشعار بذکر اللہ تعالیٰ یعنی سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جو ایک ذکر ہے اور معرفہ کے ساتھ ذکرکرنا اولیٰ ہے۔ (۲) اس صورت میں انسان اللہ سے سلامتی طلب کرتا ہے اور اللہ کا ایک نام ’’السلام‘‘بھی ہے جو معرفہ ہے؛ لہٰذا اللہ کا نام جب معرفہ ہے تو جو لفظ اُس سے مشتق ہے اُسے بھی معرفہ ہونا چاہیے۔ (۳) الف لام کے دخول سے، اسم میں معنی کی کثرت پیدا ہوجاتی ہے تو ’’السلام‘‘ معرفہ میں سلامتی کا معنی، کثرت کے ساتھ مطلوب ہوا۔ (۴) الف لام یہ کسی متعین چیز کی جانب اشارہ کے قائم مقام ہوتا ہے جیسے اسقِنِي المائَ اُس وقت کہتے ہیں جب پانی سامنے موجود ہو، تو جب جواب دینے والے نے وعلیکم السلامکہا تواس نے گویا یہ کہا: کہ آپ نے میرے لیے جس سلامتی کی دعا کی ہے، میں بعینہ وہ سلامتی کی دعا آپ کے لیے کررہاہوں، الفائدۃ الرابعۃ: أنہا تقوم مقام الإشارۃ إلی المعین کما تقول نا ولني الکتاب واسقني الماء وأعطی الثوب لما ہو حاضر بین یدیک؛ فإنک تستغني بہا عن قولک ’’ہذا‘‘ فہي مؤدیۃ معنی الإشارۃ۔ (بدائع الفوائد:۲؍۱۵۵) جوابِ سلام کے تین مقامات ہیں جوابِ سلام کے تین مقامات یعنی تین درجے ہیں، (۱) مقامِ فضل (۲) مقامِ عدل (۳) مقامِ ظلم: مقام فضل یہ ہے کہ انسان جواب احسن طریقے سے دے یعنی السلام علیکم کے جواب میں مثلا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے اور مقام عدل یہ ہے کہ برابر ا ور ہم مثل جواب دے مثلا السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلاماور مقامِ ظلم یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے الفاظ سے بھی کم الفاظ میں جواب دے مثلا السلام علیکم کا جواب صرف وعلیکم کے ذریعے دے؛ یہی وجہ ہے کہ سلام کرنے والے نے اگر سلامٌ علیکم کہا تو جواب میں وعلیکم السلام کا حکم ہے یعنی جواب دینے والا ’’السلام ‘‘ معرفہ ہی استعمال کرے گا؛ تاکہ وہ مقام فضل کو بجا لانے والا شمار ہو۔ فالفضل أن یرد علیہ أحسن من تحیتہ، والعدل أن ترد علیہ نظیرہا، والظلم أن تبخسہ حقہ وتنقصہ منہا فاختیر للراد أکمل اللفظتین ہو المعرف بالأداۃ التي تکون للاستغراق۔(بدائع الفوائد:۲؍۵۵) ٰٰخط کے اخیر میں السلام علیکم سے پہلے ’’واو‘‘ لکھنے کی وجہ