اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بوقت رخصت جو سلام ہے وہ تحیہ نہیں ہے؛ بلکہ رخصت کی اطلاع واجازت ہے؛ لہٰذا آیت سے جو سلام کے جواب کا وجوب معلوم ہورہا ہے اُس کے تحت یہ داخل ہی نہیں ہے، آگے ملا علی قاریؒ نے (حدیث نمبر: ۴۶۶۰)کے تحت علامہ نوویؒ کی عبارت نقل کی ہے، اُس میں قاضی حسین ؒاور ابو سعید المتولی ؒسے یہی بات نقل کی گئی ہے۔ علامہ نوویؒ کی نقل کردہ عبارت ہی میں آگے ہے: کہ استحباب والی رائے کاعلامہ شاشیؒ نے انکار کیا ہے اور کہا ہے: جیسے ملاقات کے وقت سلام کا جواب واجب ہے ویسے ہی رخصت ہوتے وقت بھی سلام کا جواب دینا واجب ہے، وہذا ہو الصحیح یعنی یہی وجوب کا قول صحیح ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح:۹؍۶۳، حاشیۃ الطیبی:۹؍۲۵) مجلس سے جاتے وقت خدا حافظ کہنا مجلس جاتے و قت اگر خدا حافظ کہنے کو ثابت وضروری نہ سمجھا جائے اور التزام کے بغیر کہا جائے تو مضائقہ نہیں، کہنا جائز ہے؛ البتہ بہتر و مسنون طریقہ یہ ہے کہ رخصت کرتے وقت رسول اللہﷺ جو دعا پڑھا کرتے تھے وہی دعا پڑھی جائے، وہ دعا یہ ہے : أستودع اللہ دینک وأمانتک وآخر عملک، ترجمہ: میں تمھارا دین، تمھاری امانت اور تمھارے آخری عمل کو اللہ کے حوالہ کرتا ہوں۔(دارالافتاء دارالعلوم دیوبند: ۱۳۶۷۹) جماعت کی طرف سے ایک کا سلام کرنا اور ایک کا جواب دینا کافی ہے حضرت علیؓ سے مروی ہے: کہ آپﷺ نے فرمایا: (گذرنے والی) جماعت میں سے اگر کوئی ایک سلام کرے تو پوری جماعت کی طرف سے کافی ہے اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی ایک جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہے۔(مشکوٰۃ، حدیث: ۴۶۴۸) تشریح: جماعت معنی کے لحاظ سے ایک فرد ہے یعنی وہ فرد حکمی ہے اور سلام وجواب کا مقصد، وحشت دور کرنا اور باہم الفت پیدا کرنا ہے اور یہ مقصد ایک کے سلام کرنے اور ایک کے جواب دینے سے حاصل ہوجاتا ہے؛اس لئے اس کو کافی قرار دیا گیا۔(۱)؛ تاہم سب کا سلام کرنا اور سب کا جواب دینا افضل ہے۔(عالمگیری:۵؍۳۲۵) (۲) سلام شریعت کا شعار ہے اور ایسی چیزوں میں جماعت کی طرف سے ایک آدمی نیابت کرسکتا ہے۔ ومن جہۃ المعنی: أن ہذا سلام ہو شعار الشرع فناب فیہ الواحد عن الجماعۃ۔ (المنتقٰی:۷؍۲۸۰) (۱) حجۃ اللہ البالغہ:۲؍۱۹۷۔ (چوتھی فصل )موبائل اور ٹیلیفون پر سلام وجوابِ سلام