اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کی وفات ہوگئی توجنت اس کے لیے واجب ہوجاتی ہے۔(الترغیب: ۴۸۹) ان دونوں روایتوں کو نقل کرنے کے بعد، شیخ الحدیث صاحبؒ نے تبصرہ کیا ہے: میں سمجھتا ہوں کہ اسی ثواب کے حصول کے لیے حضرت ابن عمرؓ بازار جایا کرتے تھے۔ (أوجز المسالک: ۱۷؍ ۲۰۱) مولانامنظور نعمانی صاحبؒ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا یہ کریمانہ قانون ہے کہ اس نے ایک نیکی کا اجر، اس آخری امت کے لیے، دس نیکیوں کے برابر مقرر کیا ہے، قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا من جاء بالحسنۃ فلہ عشر أمثالہا؛ اسی بنا پر رسول اللہﷺ نے اس شخص کے حق میں جس نے صرف ایک کلمہ ’’السلام علیکم‘‘ کہا تھا فرمایا: کہ اس کے لیے دس نیکیاں ثابت ہوگئیں اور جس شخص نے اس کے ساتھ دوسرے کلمہ ’’ورحمۃ اللّٰہ‘‘ کا بھی اضافہ کیا اس کے لیے آپ نے فرمایا کہ بیس نیکیاں ثابت ہوگئیں اور جس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ‘‘ کے ساتھ ، تیسرے کلمہ ’’وبرکاتہ‘‘ کا بھی اضافہ کیا آپ نے فرمایا اس کے لیے تیس نیکیاں ثابت ہوگئیں۔(ابو داؤد، رقم : ۵۱۹۵، باب کیف السلام) توابن عمر رضی اللہ عنھما اسی نیت سے بازار جاتے تھے کہ جو سامنے پڑے، اس کو سلام کریں اور ہر سلام پر کم از کم دس نیکیاں کما کر اللہ کی رحمتیں اور بندگانِ خدا کے جوابی سلاموں کی برکتیں حاصل کریں۔(معارف الحدیث: ۶؍۱۵۵) ملحوظہ: المنتقی کے مصنف علامہ باجیؒ لکھتے ہیں: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا حصول ثواب وفضیلت کے لیے بازار تشریف لے جانا، اس وقت کا واقعہ ہے؛ جب کہ حق، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زمانہ تھا، لوگوں میں دین داری اور صلاح وتقویٰ کا غلبہ تھا؛ لیکن فی زماننا ایسا کرنا دشوار ہے، فتنہ وفساد اور گناہوں میں ابتلاء عام کی وجہ سے اب گھروں میںرہنا افضل ہے،اب تو بازار ہی مرکزِ گناہ ہیں۔ (المنتقی:۲؍۲۸۳) لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بازار جایا ہی نہ جائے؛ ہاں مستقلا سلام کرنے کے لیے جانا دشوار ہے؛ ہاں اگر کسی کام سے بازار جارہے ہیں تو ضمناً اس فضیلت کو حاصل کرسکتے ہیں کہ راستے میں جو مسلمان بھائی ملیں انہیں سلام کریں، اور اگر کہیں بازار، مارکیٹ اور بھیڑ بھاڑ کی جگہیں ایسی ہیں؛ جہاں جاتے ہوئے راستے میں گناہوں میں مبتلا ہونے کا غالب گمان نہیں تو جائز ہے؛ لیکن ایسی جگہیں شاید اس زمانہ میں نہ ملیں، آپ کسی شاپنگ مال چلے جائیں، مارکیٹ وبازار کا رخ کریں، بے پردگی عروج پر پائیں گے؛ ان سب کے باوجود اس واقعہ سے اتنی بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان کو جہاں بھی موقع ملے، سلام کرنے سے چُوکنا نہیں چاہیے۔ أما الحدیث: یدل علی جواز ارتیاد المجتمعات ولو من غیر حاجۃ؛ لأداء السلام علی أہلہا؛ إذا غلب علی ظنہ أنہ لا یقع في طریقہ بمعصیۃ؛ فإذا خاف المعاصي، کان جلوسہ في بیتہ أفضل۔(نزہۃ المتقین: ۱؍۵۷۸) ۱۹- سلامتی کی دعا لینے کا شوق السلام علیکم اسلامی تہذیب کا اتنا پیارا جملہ ہے اور اس میں امن وسلامتی کا ایساراز مضمر ہے کہ جو اس کی حقیقت سے واقف ہے، وہ اس کی اشاعت وافشا کے حوالے سے