اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مستحقِ جواب نہیں ہوتا، اور حضرت ام ہانی کو سلام کے آداب اور ضابطہ معلوم نہیں تھااور سلام کے مسائل اور طریقہ سب اُس وقت اُن کے لیے بالکل نئے تھے، اُن کو معلوم نہیں تھا کہ غسل کے وقت سلام کرنا ممنوع ہے؛ حالاں کہ غسل کرتے وقت سلام شرعاً ممنوع ہے اور اُس سلام کا جواب بھی نہیں دینا چاہیے۔ (انوارِ رحمت،ص:۱۲۶) لیکن مولف کے نزدیک یہ تفصیل وتطبیق بہتر معلوم ہوتی ہے کہ غسل کرنے والے کو سلام کرنا اس وقت مکروہ ہونا چاہیے جب وہ ننگے غسل کررہا ہو، عضو ِمخصوص پر کپڑا نہ ہو، اوراگر وہ پردے سے غسل کررہا ہے تو ضرورۃ ًسلام کرنا جائز ہونا چاہیے اور غسل کرنے والا جواب بھی دے سکتا ہے، علامہ ابن نجیم ؒ نے لکھا ہے: جو شخص غسل کررہا ہواور مخصوص اعضاء کھلے ہوئے ہوں تو اُسے سلام کرنا مکروہ ہے۔ ویکرہ أن یسلم علی من ہو في الخلاء ولا یرد علیہ السلام وکذا في الحمام إن کان مکشوف العورۃ۔(البحر الرائق:۸؍۲۳۶) معلوم ہوا کہ جسم پر کپڑے ہوں تو سلام اور جوابِ سلام میں کوئی حرج نہیں ہے، حضرت ام ہانیؓ کے واقعہ کی روشنی میں یہی قول مناسب معلوم ہوتا ہے،اور حضورﷺ کے جسم پر کپڑوں کا ہونا واضح اور ظاہر ہے؛اِ سی لیے حضرت ام ہانیؓ نے سلام کیا؛ مزید براں یہ کہ حضورﷺ نے ام ہانیؓ کے طرز عمل پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ کیا نمازی کو سلام کرنا صحیح ہے؟ اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہے تو اُسے سلام نہ کیا جائے، اسے سلام کرنا فقہاء احناف کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے؛ کیوں کہ نماز اللہ تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ ہے اور حدیث میں ہے کہ انسان نماز اس طرح پڑھے جیسے وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم ایسے پڑھے کہ اس کا خیال یہ ہو کہ اگر چہ وہ خدا کو نہیں دیکھ رہا ہے؛ لیکن خدا اُسے دیکھ رہا ہے یعنی اِستغراقی کیفیت نماز میں مطلوب ہے، اب اگر جیسے عام لوگوں کوسلام کرنا مشروع ہے، ویسے ہی نمازی کو سلام کرنے کا حکم دے دیا جائے تواس کی وجہ سے نمازی کو خلل ہوسکتا ہے، اس کے استغراق وانہماک کی کیفیت ختم ہوسکتی ہے، خشوع وخضوع متأثر ہوسکتا ہے، ابن حجرؒ لکھتے ہیں: کراہۃ ابتداء السلام علی المصلي؛ لکونہ ربما شغل بذلک فکرہ واستدعی منہ الرد وہو ممنوع منہ۔(۱) (فتح الباری: ۳؍۱۱۳) حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ میں نبی کریمﷺ کو سلام کیا کرتا تھا، جب کہ آپ نماز میں ہوتے تھے؛ چناں چہ جب ہم (حبشہ سے) واپس آئے تو میں نے حضورﷺ کو سلام کیا تو آپ نے جواب نہیں دیا اور فرمایا إن في الصلاۃ شغلا۔(بخاری، رقم: ۱۲۱۶) إن في الصلاۃ شغلا کی شرح میں ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں: کہ بے شک نماز میں ہونا سلام کرنے سے مانع ہے اور علامہ طیبیؒ کے حوالے سے لکھا ہے: کہ مطلب یہ ہے کہ نماز کی مشغولیت تو قرأت قرآن، تسبیح اور دعا ہے، کلام وگفتگو نہیں، یا اِس کا مطلب یہ ہے کہ نماز ایک بہت ہی عظیم الشان