اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آگے حضرت ؒنے حقوقِ استاذ کے عنوان کے تحت استاذ کے ۱۵ حقوق لکھے ہیں، ان میں سے حق نمبر ۹ یہ ہے: جب حلقہ کے قریب پہنچے، سب حاضرین کو سلام کرے پھر استاذ کو بالخصوص سلام کرے؛ لیکن اگر وہ تقریر وغیرہ میں مشغول ہوں تو اس وقت سلام نہ کرے۔(فروع الایمان مع اصلاحی خطبات:۳۶۰) غریب اور اپنے سے کم رتبے والے کو بھی سلام کریں اسلام میں امیر و غریب اور چھوٹے بڑے کا فرق کوئی معنی نہیںرکھتا، یہاں برتری اور فوقیت کا مدار’’تقوی‘‘ پر ہے، اور تقوی کی جگہ دل ہے اور دل کا حال صرف خدا کو معلوم ہے،نتیجہ یہ نکلا کہ سارے مسلمان بھائی ہیں؛ لہٰذا وہ بھائی امیر ہو یا غریب سلام سب کو کرنا چاہیے۔ عموماً مسلمان پہرے دار، واچ مین، ملازم ومحافظ، ڈرائیور، غریب ومسکین، چھوٹی برادری وغیرہ کو لوگ سلام نہیں کرتے یہ غلط ہے، یہ تواضع کے خلاف ہے، انہیں بھی سلام کرنا چاہیے، شان گھٹے گی نہیں، بڑھے گی، حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: إن من رأس التواضع أن تبدأ بالسلام من لقیتَ۔ ہر ملاقاتی کو سلام میں پہل کرنا، تواضع وانکساری کی جڑوں میں سے ایک جڑ ہے۔(المصنف:۶؍۱۴۱) علامہ سیوطی ؒکی الجامع الصغیر میں یہ حدیث ہے: إن من موجبات المغفرۃ، بذل السلام وحسن الکلام۔ (الجامع: ۲۴۹۶) کہ سلام کو رواج دینا اور اچھی گفتگو کرنا، مغفرت کا ذریعہ ہیں، اس حدیث کی شرح میں ہے: بذل السلام أي إفشاؤہ بین الناس علی من لقیتہ، عرفتہ أم لا؛ لا سیما الفقراء والمساکین۔ (فیض القدیر: ۲؍۵۴۲) بہر حال افشائِ سلام کی جتنی بھی روایتیں ہیں، وہاں کم رتبہ لوگوں کا کوئی استثناء نہیں ہے۔ سلام کرنے کی بابت اہلِ علم کی کوتاہی حضرت تھانویؒ کے افادات میں ہے: مجھے علماء سے شکایت ہے کہ ہم لوگ اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں، عوام کو سلام کرنے سے ہم کو عار آتی ہے؛ بلکہ اس کے منتظر رہتے ہیں کہ پہلے دوسرے ہم کو سلام کریں، ہم عوام کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں؛ حالاں کہ مناسب یہ تھا کہ ہم اُن کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرتے، ہم خود اپنے آپ ہی کو کہتے ہیں کہ ابتداء بالسلام نہیں کرتے، اور اس کا منشأ وہی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ہے۔ (اسلامی تہذیب: ۶۲) سلام کرنا مسلمانوں کا شعار ہے مفتی تقی عثمانی صاحب زید مجدہ بیان کرتے ہیں: یہ سلام مسلمانوں کا شعار ہے، اِس کے ذریعہ انسان پہچانا جاتا ہے کہ یہ مسلمان ہے ایک مرتبہ میراچین جانا ہوا اور چین میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے؛ لیکن اُن کی