اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علماء نے بوسہ کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں: (۱) قُبلۃ المودۃ: محبت کا بوسہ جیسے والدین کا اپنے بچوں کے رخسار کو چومنا (۲) قبلۃ الرحمۃ: رحمت واکرام کا بوسہ جیسے اولاد کا اپنے والدین کے سر پر بوسہ دینا (۳) قبلۃ الشفقۃ: شفقت کا بوسہ جیسے بہن کا بھائی کی پیشانی کو چومنا (۴) قبلۃ الشہوۃ: شہوت کا بوسہ جیسے شوہر کا اپنی بیوی کے چہرے کو چومنا (۵) قبلۃ التحیۃ: سلام کا بوسہ جیسے مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھ کو چومنا (۶) قبلۃ الدیانۃ: دیانت کا بوسہ جیسے حاجی کا حجر اسود کو چومنا(۱) (الدر المختار علی ھامش رد المحتار:۵۵۱) قرآن کو چومنا قرآن کریم کتابِ ہدایت وتلاوت ہونے کے ساتھ ساتھ کتابِ برکت بھی ہے اورخدا کاکلام ہے؛ اس لیے سید الکلام بھی ہے، جس کی مثبت اور بابرکت تاثیر کا انکار غیر بھی نہ کرسکے، اِس (۱) یہ حج کا ایک عمل ہے،حجر اسود ایک پتھر ہے جو جنت سے اس دنیا میں اتارا گیا تھا، ترمذی کی روایت میں ہے: وہو أشد بیاضا من اللبن فسّوَّدتہ خطایا بنی آدم کہ نہایت سفید پتھر تھا، بنی آدم کے گناہوں نے اُسے سیاہ کردیا، بہر حال حضورﷺ سے حجر اسود کو بوسہ دینا ثابت ہے، حضرت عمرؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اس کو بوسہ دیا اور کہا: مجھے معلوم ہے کہ تم ایک پتھر ہو، نہ نفع پہنچا سکتے ہو نہ ہی نقصان(یہ جملہ اس غلط اعتقاد کے خلاف تھا کہ کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ بت موثر حقیقی ہوتے ہیں) اور اگر میں نے حضورﷺ کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہارا بوسہ نہ دیتا، ابو داؤد، رقم:۱۸۷۳، باب تقبیل الحجر۔ کلام کو جس چیز میں رکھ دیا جائے وہ بابرکت، جس چیز پر لکھ دیا جائے وہ قابلِ احترام، جس پر پڑھ کر دم کردیا جائے وہ قابل صحت، ظاہر سی بات ہے ایسے کلام کو چھونا، بوسہ دینا، آنکھوں سے لگانا، سرمۂ چشم بنانا، سینے سے چمٹانا سب خیروبرکت کا سبب ہیں؛ لہٰذا قرآن کو چومنا جائز ہے۔ علامہ حصکفیؒ نے نقل کیاہے: حضرت عمررضی اللہ عنہ ہر صبح مصحف کولیتے تھے اور اسے بوسہ دیتے تھے، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی مصحف کو بوسہ دیتے تھے اور اُس کو اپنے چہرے سے مس کرتے تھے۔(الدر علی ھامش الرد:۹؍۵۵۲) مولف عرض گزار ہے، پیچھے قبلہ(بوسہ) کی چھ قسمیں گذری ہیں، یہ قرآن کو بوسہ دینا ساتویں قسم ہے، اسے ’’قبلۃ البرکۃ‘‘ کہنا مناسب ہے۔ صحابہ کرامؓاورسلف صالحین کی عادت مبارکہ تھی کہ وہ قرآن کریم کو چومتے تھے اور اس میں قرآن کریم کی تعظیم وتکریم مضمر ہے؛ لہٰذا ایسا کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔(فتاوی محمویہ: ۲؍۱۵۹) دعا کے بعد ہاتھ چومنا دعا کے بعد ہاتھ وغیرہ چومنا بدعت ہے۔(فتاوی ریاض العلوم:۱؍۳۶۹) بوقت اذان انگوٹھا چومنا اذان واقامت میں جب أشہد أن محمدا رسول اللہ کہا جاتا ہے تو بہت سے لوگ انگوٹھا