اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرنی پڑے گی؛ چناں چہ تین الفاظ تک حد بندی کردی گئی…ورنہ تسلسل جاری رکھنا پڑے گا۔(تفسیر انوار القرآن:۲؍۴۲۱) ابن قیمؒ کی رائے: مسنون سلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ سلام ایک تحیہ ہے اور تحیہ کا مطلب زندگی ہے اور زندگی کی تکمیل تین باتوں سے ہوتی ہے: پہلی چیز ہے انسان کا شرور وفتن سے صحیح سلامت رہنا، دوسری چیز ہے خیر وبھلائی کا حصول اور تیسری چیز ہے اُس خیر وبھلائی کی پائیداری اور اُس کادوام، السلام علیکمسے پہلی چیز مراد ہے، جب کہ’’ ورحمۃ اللہ‘‘ سے دوسری چیز اور’’ وبرکاتہ‘‘ سے تیسری چیز مراد ہے، اب اس کے آگے کچھ ہے ہی نہیں؛ لہٰذا سلام کو یہیں ختم ہونا چاہیے۔( بدائع الفوائد: ۲؍۱۸۱) ثواب میں اضافہ کی وجہ کلماتِ سلام میں اضافہ سے ثواب میں اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ سلام کی مشروعیت کی غرض، بشاشت ومسرت، اتحاد ویگانگت، مودت ومحبت، ذکر ودعا اور معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہے؛ کہ وہی سلامتی کے ضامن ہیں؛ پس کلماتِ سلام میں اضافہ، مقصد ِسلام کی تکمیل کرتا ہے؛ اِس لیے ثواب بڑھتا رہتا ہے۔(رحمۃ اللہ الواسعہ:۵؍۵۴۸) ناقص رائے ایک اور بات یہ کہ کسی بھی چیزمیں تین درجے ہوتے ہیں: اعلیٰ، اوسط اور ادنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اعلیٰ درجہ ہے؛ کیوں کہ تین دعاؤں پر مشتمل ہے، اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ اوسط، اور السلام علیکم ادنیٰ درجہ؛ کیوں کہ بالترتیب دو اور ایک دعا پر مشتمل ہیں۔ سلام میں ’’السلام‘‘ کی تقدیم کی وجوہات (۱) سلام کے آغاز میں ’’السلام‘‘ آتا ہے اور سلام کے اختتام پر بھی ’’السلام‘‘ آتا ہے، صاحب تفسیر کبیر علامہ رازیؒ کہتے ہیں: یہ اچھی ترتیب ہے، اِس ترتیب کے مطابق آغاز اور اختتام دونوں اللہ کے ذکر پر ہوتا ہے اور یہ ترتیب اللہ کے ارشاد ہو الأول والآخر کے مطابق ہے؛ علاوہ ازیں جب کسی کام کی ابتداء اور انتہا دونوں ذکرِ خداوندی پر ہو، تو اُس کی برکت سے، دونوں کے درمیان جو طے ہوگا، اللہ اُسے قبولیت سے نوازیں گے، اِس کی قوی امید کی جاسکتی ہے؛ چناں چہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے: جب کوئی سلام کرنے کا ارادہ کرے تو اُسے السلام علیکمکہنا چاہیے؛ کیوں کہ اللہ ہی سلام ہیں؛ لہٰذا اللہ سے پہلے کسی اور چیز سے آغاز مت کرو۔ (اوجز ا لمسالک: ۱۷؍۱۶۴) (۲) لفظ سلام کی تقدیم وتاخیر کے حوالے سے قرآن کریم کا طرز عمل دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ السلام کے ذریعہ جو دعادی جاتی ہے وہ خیر کی دعا ہے اور خیر کی دعا میں لفظِ خیر کو مقدم کرنا بہتر ہے؛ لہٰذا پہلے السلام کہا جائے؛ چناں چہ قرآن میں جہاں جہاں سلام کو دعائِ خیر کے لیے استعمال کیا گیا ہے، وہاں سلام کو مقدم کیا گیا ہے مثلا: سَلَامٌ عَلَی نُوحٍ فِیْ الْعَالَمِیْنَ(۱) سَلَامٌ عَلَی إِلْ یَاسِیْنَ(۲) وغیرہ، اور جہاں دعائِ خیر نہیں؛