اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اب گھر میں پہنچیں تو وہاں کی بیبیوں کو سلام کیا خوب ہوا، بعضوں نے تو زبان کو تکلیف ہی نہیں دی، فقط ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا بس سلام ہوگیا، اِس طرح سلام کرنے کی حدیث میں ممانعت آئی ہے، بعض نے سلام کا لفظ کہا بھی تو صرف سلام یہ بھی سنت کے خلاف ہے السلام علیکمکہنا چاہیے، اب جواب ملاحظہ فرمائیے، ٹھنڈی رہو، سہاگن رہو، عمر دراز، دددھوں نہاؤ، پھولو پھلو، بھائی جیے، میاں جئے، بچہ جئے، غرض کنبہ بھر کے نام گنانا آسان اور وعلیکم السلام جس کے اندر سب دعائیں آجاتی ہیں، مشکل، یہ ہمیشہ ہمیشہ سنت کی مخالفت کرنا، پندرھواں گناہ ہوا۔ (اشاعتی بہشتی زیور۶؍۳۱۰) مسئلہ: بعض بڑی بوڑھیوں کی؛ بلکہ بعض جوانوں کی بھی عادت ہے کہ منت مانتی ہیں کہ اگر میری فلاں مراد پوری ہوجائے تو مسجد میں جا کر سلام کروں یامسجد کاطاق بھروں، پھر مسجد میں جا کر اپنی منت پوری کرتی ہیں؛ سو یاد رکھو عورتوں کو مسجد میں جانا اچھا نہیں، نہ جوان کو نہ بوڑھی کو، کچھ نہ کچھ بے پردگی ضرورہوتی ہے، اللہ میاں کا سلام یہی ہے کہ کچھ نفلیں پڑھ لو، دل سے زبان سے شکر ادا کرلو، سو یہ گھر میں بھی ممکن ہے اور طاق بھرنا یہی ہے کہ جو توفیق ہو محتاجوں کو بانٹ دو، سو یہ بھی گھر میں ہوسکتا ہے۔(بہشتی زیور:۵؍۲۹۲) غلط رسم: (جب بچہ پیدا ہوتا ہے) نائن گود میں کچھ اناج ڈال کر سارے کُنبے میں بچے کا سلام کہنے جاتی ہے، اور وہاں سب عورتیں اس کو اناج دیتی ہیں، اِس کو چھوڑنا چاہیے۔(بہشتی زیور:۶؍۳۰۲) مسئلہ: عورتوں میں السلام علیکم کہنے کا اور مصافحہ کرنے کا رواج نہیں ہے، یہ دونوں باتیں ثواب کی ہیں، اِن کو پھیلانا چاہیے۔ (ایضاً) نماز کے بعد سلام: بعض علاقوں میں لوگ نماز سے فراغت کے بعد ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں، یہ مسنون سلام نہیں،اِس رواج کو ترک کرنا چاہیے، کتاب الفتاوی میں ہے: سلام کا نماز سے کوئی تعلق نہیں، سلام کا تعلق ملاقات سے ہے، ابتداء ملاقات میں سلام کرنا چاہیے، جن لوگوں سے پہلے ہی ملاقات ہوئی،ساتھ ساتھ نماز ادا کی؛ اُس جگہ وہ لوگ موجود ہیں، تو نماز کے بعد خاص طور پر انہیں دوبارہ سلام کرنے کے کوئی معنی نہیں، رسول اللہﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اِس موقع پر سلام ثابت نہیں۔(کتاب الفتاویٰ:۱؍۴۰۲) دولہے کا سلام کرنا بعض جگہوں پر دولہا ایجاب وقبول کے بعد، اُسی مجلس میں لوگوں کو کھڑے ہو کر سلام کرتا ہے، وہ بھی چاروں طرف الگ الگ، اِس کی کوئی اصل نہیں۔فتاویٰ ریاض العلوم میں ہے: شریعت مطہرہ میں سلام کا موقع، وقتِ ملاقات ہے نہ کہ بعد نکاح؛ لہٰذا اِس موقع پر سلام کرنا محض رسم اور بے محل ہے۔(فتاوی ریاض العلوم:۱؍۳۸۴) سلامی کا رواج