اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے ساتھ بتلایا ہے کہ ایک دوسرے کو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے، یہ محبت ومودت دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔(معارف الحدیث: ۶؍۱۵۳) اخلاص ہر عمل کی جان ہے یہاں یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ کسی عمل کی خاص تاثیر جب ہی ظہور میں آتی ہے؛ جب کہ اس عمل میں روح ہو، نماز، روزہ اور حج اور ذکر اللہ جیسے اعمال کا حال بھی یہی ہے؛ بالکل یہی معاملہ سلام ا ور مصافحہ کا بھی ہے کہ یہ اگر دل کے اخلاص اور ایمانی رشتہ کی بناء پر، صحیح جذبہ سے ہوں تو پھر دلوں سے کدورت نکلنے اور محبت ومودت کا رس پیدا ہوجانے کا یہ بہترین وسیلہ ہیں۔(حوالہ سابق) اسی اخلاص سے عمل قیمتی بنتا ہے، اس کے بغیر عمل بے جان رہتا ہے؛ بلکہ کبھی وبالِ جان بن جاتا ہے۔ ۶- افشاء سلام، حلاوتِ ایمانی کا ذریعہ حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس نے تین باتوں کو جمع کرلیا، اس نے ایمان کو جمع کرلیا اور دوسری روایت میں ہے، وہ ایمان کی چاشنی پائے گا۔(۱) الإنصاف من نفسک (اپنی ذات کے بارے میں انصاف کرنا یعنی خود شناسی) (۱) (۲ ) بذل السلام للعالم (دنیا میں سلام پھیلانا) (۳) والإنفاق من ا لإقتار (تنگ دستی کے باوجود خرچ کرنا)(شرح السنۃ: ۱۲؍۲۶۱) تشریح: یہ تینوں خصلتیں تکمیل ایمان کا ذریعہ ہیں؛ کیوں کہ ایمان کامدار ان تین خصلتوں پر ہے؛ اس لیے کہ انسان جب انصاف کی صفت سے متصف ہوگا تو خود شناس، خدا شناس اور موقعہ شناس ہوگا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی سے گریز کرے گا،اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب اس کا شیوہ ہوگا اور بذل سلام یعنی سلام کو دنیا میں عام کرنا، اس وصف میں تواضع، انکساری وخاکساری، مکارم اخلاق، الفت ومحبت اور باہمی رواداری جیسی صفات پوشیدہ ہیں، اور تنگ دستی میں خرچ کرنا، یہ عادت جس میں ہوگی وہ سخی ہوگا، حقوقِ مالیہ کو ادا کرنے والا ہوگا، اسے خدا کی رزاقیت پر کامل درجہ کا بھروسہ ہوگا، دنیا اور اس کی دولت سے بے رغبت ہوگا، آخرت کی تیاری کرنے والا ہوگا، اب سوچیے جو اتنے سارے اوصاف حمیدہ کا حامل ہوگا تو اسے حلاوتِ ایمانی نہیں ملے گی توپھر کسے ملے گی؟ یہی کامل ایمان کا مطلب ہے، اللہ ہمیں بذلِ سلام کی توفیق دے، آمین۔(شرح السنۃ:۱۲؍۲۶۱، زاد المعاد: ۲؍۳۷۱) (۱) اپنے ساتھ انصاف کرنے کی مثال: دوسروں کے معاملہ میں انصاف کرنا تو ہر کوئی جانتا ہے اور کرتاہے اور اپنے اور اپنے متعلقین کے معاملہ میں انصاف کرنے کو بھی ہر کوئی جانتا ہے، مگر یہ کام مشکل ہے، قوی ایمان والا ہی یہ کام کرسکتا ہے، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بنو امیہ کی ناجائز املاک بمد حکومت ضبط کرلیں؛ یہاں تک کہ اپنی اہلیہ کا قیمتی ہار بھی بیت المال میں داخل کرادیا، اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے اپنے پوتے کے معاملہ میں دو فیصد غیر حاضری کی بھی رعایت نہیں کی،اور اس کو سالانہ امتحان میں شریک نہیں کیا، یہ ہے اپنی ذات کے ساتھ انصاف کرنا۔( تحفۃ القاری:۱؍۲۴۵ ) ۷- سلام میں سبقت کرنا تکبر سے پاکی کی علامت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: