اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
أن السنۃ أن تکون المصافحۃ بالید الواحدۃ یعنی الیمنی من الجانبین سواء کانت عند اللقاء، أو عند البیعۃ۔ یعنی سنت ،ایک ہاتھ یعنی دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرنا ہے، دونوں طرف سے، خواہ ملاقات کے وقت ہو یا بیعت کے وقت ہو، اور یہی نہیں انہوں نے حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مسلک بتایا ہے اور مخصوص عبارتوں سے ثابت کیا ہے، اور مصافحہ ایک ہاتھ سے ہی مسنون ہے، اس کے لیے تین دلائل پیش کئے ہیں، جن پر بحث آگے آرہی ہے، مولف کو حیرانی ہے کہ آخر انہوں نے ان تمام روایتوں کو جن میں دو ہاتھوں سے مصافحہ کا تذکرہ ہے؛ کیوں چھوڑ دیا اور سارا زور اِس پر لگادیا کہ مصافحہ مسنون ایک ہاتھ سے ہی ہے- آپ کس رائے کو معتدل کہیں گے؟ فیصلہ کیجیے۔ اُن روایات کا جائزہ جو مصافحہ بالید الواحدۃ کے سلسلے میں پیش کی جاتی ہیں مولانا عبد الرحمان مبارک پوری صاحبؒ نے تحفۃ الاحوذی میں ایک روایت نقل کی ہے: عن عبد اللہ بن بسر قال: ترون یدی ہذہ صافحت بہا رسول اللہﷺ یہ روایت ابن عبد البر کی ہے، مسند احمد کی روایت یوں ہے ترون کفی ہذہ فأشہد أنی وضعتہا علی کف محمدﷺ۔(تحفہ:۷؍۴۳۰) تجزیہ: یقینا اس روایت میں یدی اور کفی کا تذکرہ ہے، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اولاً اس میں دوسرے ہاتھ کی نفی نہیں ہے، ثانیاً ایک ہاتھ سے بھی مصافحہ ہوسکتا ہے، دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کی نفی اس سے ثابت نہیں ہوتی، ثالثاً حضرت عبد اللہؓ یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ میرا یہ ہاتھ حضورﷺ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا، دوسرے ہاتھ سے کوئی خاص غرض متعلق نہیں ہے؛ اِس لیے ا س کا تذکرہ نہیں کیا، جیساکہ ابن مسعودؓ کی روایت میں گذرا، رابعاً ید اور کف سے جنس ید اور جنس کف بھی مراد ہوسکتا ہے، خامساً دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کی حالت میں بھی در حقیقت مصافحہ ایک ہی ہاتھ سے ہوتا ہے؛ کیوں کہ ہر شخص کے ایک ہی ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے کی ہتھیلی سے ملتی ہے، سادساً ثبوتِ ’’ید‘‘ عدم ثبوت ’’یدین‘‘ کو مستلزم نہیں - سابعاً اس روایت کو اگر معیار مصافحہ قرار دیا جائے تو ان روایتوں کا کیا ہوگا جس میں صراحۃً یا اشارۃً دو ہاتھوں کا تذکرہ ہے- الغرض اتنے سارے احتمالات کے ساتھ اِس روایت سے مصافحہ بالید کو ثابت کرنا تام نہیں۔ ( الابواب:۶؍۳۵۵، احسن الفتاویٰ:۸؍۴۰۰، اوجز: ۱۶؍۱۳۳) (۲) ایک روایت مسلم کی پیش کی جاتی ہے : عن عمروبن العاص قال أتیت النبيﷺ، فقلت: ابسط یمینک، فَلَأُبایعک فبسط یمینہ…(تحفۃ الاحوذی:۷؍۴۳۱) تجزیہ: دائیں ہاتھ کا تذکرہ، دائیں ہاتھ کی شرافت وفضیلت کے لیے ہے، دوسری بات یہ کہ مصافحہ کی حالت میں در حقیقت دونوں شخصوں کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلیاں ہی ملتی ہیں، حدیث میں یمین کا تذکرہ، یسار سے احتراز کے لیے نہیں ہے، شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ لکھتے ہیں: لا یقال: إنہ وقع التصریح بالمصافحۃ بالیمین في بعض الروایات؛ لأن ذلک لیس إلا لشرافۃ الیمین، ولأن الأصل في إلصاق الکفین ہما الیمینان، ولیس ذکر الیمین للاحتراز عن الیسار۔ شیخ ؒنے اس کو مدلل ثابت کیا ہے، تفصیل کی لیے اوجز دیکھئے۔(اوجز: ۱۶؍۱۳۳) نوٹ: یہ نہیں کہہ سکتے کہ شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ کا جواب مصافحہ کے