اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
السنیؒ کی کتاب عمل الیوم واللیلہ سے نقل کی ہیں، ملاحظہ فرمائیں: حضرت انسؓ نبی کریمﷺ سے نقل کرتے ہیں: کوئی بھی دو مسلمان بندے جو اللہ کے واسطے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں،اُن میں سے جو کوئی اپنے دوست سے مل کر اُس سے مصافحہ کرتا ہے پھر دونوں نبی کریمﷺ پر درود بھیجتے ہیں تواُن دونوں کے الگ ہونے سے پہلے اُن کے اگلے پچھلے گناہِ صغیرہ معاف کردیے جاتے ہیں۔(الاذکار،رقم: ۸۰۷) حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ: نبی کریمﷺ نے مصافحہ کے لیے کسی کا بھی ہاتھ پکڑا تو چھوڑنے سے پہلے یہ دعا پڑھتے تھے، اللہم آتنا في الدنیا وفي الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ (الاذکار:۸۰۸) معلوم ہوا کہ مصافحہ کے وقت جیسے یغفر اللہ لنا ولکم پڑھ سکتے ہیں، ویسے ہی کبھی دورد پڑھ لیں یا اللہم آتنا في الدنیا الخ پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں ۔ بوقت مصافحہ دونوں کو دعاپڑھنی چاہیے مصافحہ کے وقت مغفرت کی دعا پڑھنے کا استحباب جو ذکر کیا گیا ہے تو یہ دعا مصافحہ کرنے والا اور جس سے مصافحہ کیا جارہا ہے دونوں کو پڑھنی چاہیے؛عموماً بوقت مصافحہ دعا ہی نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے ہیں تو صرف مصافحہ کرنے والے جس سے مصافحہ کیا جاتاہے وہ خاموش رہتا ہے، اِس حوالے سے اصلاح کی ضرورت ہے، توجہ سے اصلاح ممکن ہے، استغفار کے سلسلے کی جتنی روایتیں ہیں عموماً ان میں تثنیہ کے صیغے مروی ہیں؛ چناں چہ حضرت براءؓ کی مشہور روایت میں وحمدا اللہ واستغفراہکے الفاظ ہیں، یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ دعائِ مغفرت ’’یغفر اللہ لنا ولکم‘‘ دونوں کو پڑھنی ہے۔ استغفار کا مطلب مصافحہ کے وقت ’’یغفر اللہ لنا ولکم‘‘ پڑھنا یہ مغفرت کی دعا ہے جسے استغفار کہتے ہیں، یہاں استغفار کا مطلب سمجھ لینا چاہیے، کوئی بھی دعا جب سمجھ کر پڑھی جائے گی تو تاثیر دو چند ہوگی، حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے الأذکار وما یتعلق بہاکے تحت، استغفار کاتذکرہ کیا ہے، اہل علم وہاں دیکھ سکتے ہیں، عوام کے لیے رحمۃ اللہ الواسعہ سے یہاںمختصراً نقل کیا جاتا ہے۔ استغفار کے معنی ہیں تو بہ کرنا یعنی اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی مانگنااور بخشش طلب کرنا، شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: استغفار کی حقیقت اور اُس کی روح یہ ہے کہ آدمی اپنے گناہوں کو سوچے، جنہوں نے اس کے نفس کو گھیر رکھا ہے، یعنی اس کو میلا اور گندہ کررکھا ہے اور اسباب مغفرت اختیار کر کے نفس کو ان گناہوں سے پاک کرے۔(رحمۃ اللہ الواسعہ:۴؍۳۳۶)