اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جمہور مفسرین کی رائے ہے کہ یہاں تحیہ سے مراد سلام کرنا ہے۔ صاحبِ روح المعانی لکھتے ہیں: وہي في الأصل کما قال الراغب: الدعاء بالحیاۃ وطولہا، ثم استعملت في کل دعاء، وکانت العرب إذا لقی بعضہم بعضا تقول: حیاک اللّٰہ تعالیٰ، ثم استعملہا الشرع في السلام وہو تحیۃ الإسلام۔(روح المعانی:۵؍۱۰۰) آیت کا پس منظر جن حالات میں یہ آیت نازل ہوئی، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات کشیدہ تھے اورعموماً جب تعلقات کشیدہ ہوں تو اندیشہ ہوا کرتا ہے کہ کہیں تلخ کلامی کی نوبت نہ آجائے اور گفتگو میں کجروی یا کج خلقی کی صورت نہ ہو جائے، ان دونوں باتوں کو پیشِ نظر رکھ کر مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم باہم ملو، تب بھی شائستہ انداز ہونا چاہیے، پیار ومحبت کا برتاؤ ہونا چاہیے اور دوسروں سے ملو تب بھی تہذیب واخلاق کے دائرے میں رہنا چاہیے، دوسرے احترام سے پیش آئیں تو تم بھی اس کے جواب میں زیادہ احترام سے پیش آؤ، شائستگی کا جواب، شائستگی ہونی چاہیے، ترش روئی تمہارے منصب کے خلاف ہے، مسلمان دنیا کے لیے داعی ہیں، ان کو تو دوسروں سے بڑھ کر مہذب وشائستہ ہونا چاہیے، سخت کلامی اور درشتی سے نفس کی تسکین بھلے ہی ہوجائے؛ لیکن ساتھ ہی وہ شخص نظروں سے گرجاتا ہے اور اس کے کاز کو نقصان پہنچتا ہے۔(تفسیر انوار القرآن:۲؍۳۱۸) اس آیت میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا حکم ہے، اور حسنِ اخلاق ومعاشرت کی اس اصل پر زور دیا ہے کہ جب کبھی کوئی شخص تمہیں سلام کرے، تو چاہیے کہ اس نے جو کچھ کہا ہے، اس سے بہتر طور پر اس کا جواب دو، اور اگر بہتر طور پر نہ دو تو کم از کم اسی کی بات اس پر لوٹا دو، یہ حکم یہاں اس مناسبت سے آیا کہ جنگ کی حالت ہو یا امن کی، منافق ہو یا ایمان دار؛ لیکن جو کوئی بھی تم پر سلامتی بھیجے، تمہیں بھی اس کا ویسا ہی جواب دینا چاہیے، اس کے دل کا حال خدا جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔(تفسیر ترجمان القرآن:۱؍۳۸۲) اس آیت سے ثابت شدہ مسائل واحکام ان شاء اللہ ’’مسائل واحکام‘‘ کے تحت لکھے جائیں گے۔ ۲- یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَہْلِہَا۔(النور: ۲۷) اے ایمان والو! تم اپنے گھروں کے سو ادوسرے گھروں میں داخل مت ہو؛ جب تک اجازت حاصل نہ کرولو(اور اجازت لینے سے پہلے) ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو۔ یعنی اول باہر سے سلام کر کے پھر ان سے پوچھو کہ کیا ہمیں اندر آنے کی اجازت ہے اور بغیر اجازت لیے ایسے ہی مت داخل ہو، یعنی کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے دو کام کرنا ضروری ہیںاول کام استیناس یعنی اجازت لینا اور دوسرا گھر والوں کو سلام کرنا۔ ۳- فَإِذَا دَخَلْتُم بُیُوتاً فَسَلِّمُوا عَلَی أَنفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِندِ اللَّہِ مُبَارَکَۃً طَیِّبَۃً۔(النور: ۶۱) جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے لوگوں کو (یعنی وہاں جو مسلمان ہوں ان کو) سلام کر لیا کرو(جوکہ) دعا کے طور پر (ہے) اور جو خدا کی طرف سے متعین ہے۔ اس آیت میں گھریلو معاشرت کی جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ آمدورفت کے وقت اہل خانہ