اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے لیے ہے؛ اگر یہ سب باتیں نہیں ہیں پھر بھی سلام کرنا چاہیے، کم از کم فرشتے تو جواب دیں گے؛ الادب المفرد کی ایک روایت پڑھیے: حضرت عبد اللہ بن الصامت ؓنے حضرت ابوذر ؓ سے کہا: کہ میرا گذر حضرت عبد الرحمن بن ام الحکم کے پاس سے ہوا تو میں نے سلام کیا؛ لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا، حضرت ابوذرؓ نے کہا: بھتیجے! انہوں نے جواب نہیں دیا تو کیا ہوا، تمہیں تواُس نے جواب دیا ہے جو اُن سے بہتر ہے یعنی تمہارے دائیں جانب رہنے والے فرشتے نے تمہیں جواب دیا ہے۔ (الأدب المفرد،رقم:۹۷۴، باب من لم یرد السلام) اور جو لوگ بلا وجہ سلام کا جواب نہیں دیتے، انہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پڑھنی چاہیے کہ دھوکے میں رہنے والا ہی سلام کا جواب نہیں دیتا، حضورﷺ کا ارشاد ہے: ومن لم یجب السلام فلیس منا کہ جو شخص بلا وجہ سلام کا جواب نہیں دیتا وہ ہمارے طریقہ سے ہٹا ہوا ہے۔(عمل الیوم لابن السنی،رقم:۲۱۱) مسئلہ: لیکن اگر کوئی بد نصیب ایسا ہے جو سلام کرنے سے غصہ اور ناراض ہوتا ہے، لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کو سلام نہ کرنا ہی بہتر ہے، سلام کر کے فتنہ کو دعوت دینا بہر حال درست نہیں۔ علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں: من خاف من مکالمۃ أحد، وصلتہ ما یفسد علیہ الدین، أو یدخل مضرۃ في دنیاہ، یجوزلہ مجانبتہ و البعد عنہ، ورب ہجر حسن، خیر من مخالطۃ موذیۃ۔ (بذل المجھود:۱۳؍۳۲۰) غالب گمان ہو کہ جواب نہیں دے گا تو؟ اگر کسی کے بارے میں یہ خیال ہو کہ ُاسے سلام کریں گے تو یہ جواب نہیں دے گا؛ کیوں کہ متکبر معلوم ہوتا ہے یا لا پرواہ معلوم ہوتا ہے؛ لہٰذا اُسے سلام کر کے کیا فائدہ، علامہ عینیؒ لکھتے ہیں: کہ ایسا خیال درست نہیں؛ بلکہ ایسے شخص کو بھی سلام کرنا چاہیے، خیال غلط بھی ہوسکتا ہے،اور مومن کے ساتھ تو حسن ظن کا حکم ہے۔(عمدۃ القاری:۱۵؍۳۵۵) دو مسلمان میں بات چیت بند ہو تو سلام کر کے بات چیت شروع کرنا سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں، ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان بھائی سے ترکِ تعلقات،ترکِ تکلم جائز نہیں ہے؛بالخصوص جب کہ بات چیت بند کرنے کا سبب کوئی دینی یا اصلاحی سبب نہ ہو؛ بلکہ اخوت ومحبت اور ادائے حقوق میں کوتاہی کی وجہ سے ہوتو اس سلسلے میں احادیث میں وعید آئی ہے؛ لہٰذا اگر بلا سبب ِشرعی بات چیت بند ہو تو پہلی فرصت میں اس سے ملاقات کرکے سلام وکلام شروع کردے، فرمان نبوی ہے: کسی مومن کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے مومن سے تین دنوں سے زیادہ بات چیت بند رکھے؛ چناں چہ اگر تین دن گذر گئے تو اس سے ملاقات کر کے اُسے سلام کرنا چاہیے، اگر وہ سلام کا جواب دیتا ہے تو دونوں بات چیت شروع کرنے کے ثواب میں شریک ہوں گے اور اگر اُس نے جواب نہیں دیا تو گناہوں میں گرفتار ہوگا۔(ابوداؤد: ۴۹۱۲، باب فی ھجرۃ الرجل أخاہ) تشریح: معلوم ہوا کہ سلام از سر نو بات چیت کا بہترین ذریعہ ہے، اور پہلا مومن اگر اقدام کرتا ہے تو دوسرے مومن پر لازم ہے کہ وہ اُس کا استقبال کرے، گلے لگائے اور