اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کسی کے سلام کا جواب دے، یہاں بھی سلام وجوابِ سلام کی کراہت لغیرہ ہے، کہ کام اور یکسوئی میں خلل نہ ہو، ظاہر سی بات ہے کہ اگر وہ سلام وجوابِ سلام میں مصروف ہوگا توسلام کے بعد مصافحہ اور خیر خیریت کی بھی نوبت آتی ہے، اس میں وقت لگے گا، نیز کبھی سلام وجوابِ سلام کی وجہ سے کسی ایک جانب جھکاؤ کی تہمت لگ جاتی ہے، غیر جانب داری کا الزام لگ جاتا ہے؛ کیوں کہ سلام ومصافحہ مسکراہٹ وبشاشت کے ساتھ کرنا چاہیے اور بسا اوقات مسکرانا باعثِ الزام ہوجاتا ہے؛اسی وجہ سے فقہاء نے لکھا ہے کہ قاضی کی توجہ دونوں فریق کی طرف برابر ہونی چاہیے، ہاں اگر ایسی کیفیت نہیں ہے، یا سلام ومصافحہ عرفاً الزام وتہمت کا سبب نہیں سمجھا جاتا، لوگوں کے دلوںمیں اِس موقع پر اس کا خیال بھی نہیں آتا، تو سلام وجوابِ سلام میں کوئی حرج نہیں؛ بشرطیکہ قضا کے کاموں میں خلل نہ ہو۔ وإذا جلس القاضي ناحیۃ من المسجد للحکم، لا یسلم علی الخصوم، ولا یسلمون علیہ؛ لأنہ جلس للحکم، والسلام تحیۃ الزائرین؛ فینبغي أن یشتغل بما جلس لأجلہ، وإن سلموا لا یجب علیہ الرد۔(رد المحتار:۹؍۵۹۵) ہاں جب قاضی دارالقضا میں آرہا ہے، اور دارالقضا میں پہلے سے کچھ لوگ موجود ہیں، دارالقضا کے ملازم ہوں یا فریقین ہوں، اس وقت قاضی سلام کرتے ہوئے داخل ہوگا، اور یہ سلام مسنون ہے، اس کی ممانعت نہیں ہے،حضرت شریح قاضی تھے، ان کا طرز عمل یہی تھا۔ ویسلم علی الخصوم، إذا دخلوا المحکمۃ؛ لأن السلام من سنۃ الإسلام، وکان شریح یسلم علی الخصوم؛ لکن لا یخص أحد الخصمین بالتسلیم علیہ دون الآخر، وہذا قبل جلوسہ في مجلس الحکم۔(بدائع الصنائع: ۵؍۴۵۱) یہی مسئلہ اور یہی حکم مفتی کے بارے میں ہے، وہ دارالافتاء آرہا ہے تو بیٹھنے سے پہلے دارالافتاء میں موجود لوگوں کو سلام کرسکتا ہے،فتویٰ نویسی میں مشغول ہوگیا، اب سلام وجوابِ سلام کو ترک کردے؛ تاکہ افتاء کا کام نہ رکے ۔ رہ گئے حکمراں اور افسران، اگر یہ لوگ رعیت وعوام کے معاملات کی دیکھ ریکھ اور لوگوں سے ملاقات کے لیے کہیں بیٹھیں تو لوگ انہیں سلام کرسکتے ہیں، اور یہ لوگ بھی سلام کرسکتے ہیں، جواب دے سکتے ہیں؛ کیوں کہ وہ زیارت وملاقات کے لیے بیٹھے ہیں، اور ایسے وقت میں سلام مسنون ہے، اور یہی لوگ اگر فیصلہ کرنے کے لئے کہیں بیٹھیں تو اب سلام وجواب مکروہ ہوگا اور اگر قاضی زیارت وملاقات کے لیے بیٹھے تو سلام وجواب مکروہ نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع: ۵؍۴۵۱) اور مکروہ ہونے کا مطلب یہاں یہ نہیں ہے کہ اگر قاضی، مفتی وغیرہ کو کوئی سلام کردے تو قصداً وہ جواب نہیں دیں گے؛ بلکہ اگر وہ جواب دے دیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔(ایضا) خطبہ جمعہ سے پہلے خطیب سلام کرے یا نہ کرے؟ ملا علی قاریؒ نے، علامہ نوویؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ: امام یا خطیب خطبہ شروع کرنے سے پہلے یا دورانِ خطبہ سلام نہ کرے؛ کیوں کہ اگر سلام کرے گا تو حاضرینِ جمعہ کو جواب دینا پڑے گا؛ حالاں کہ اُس وقت انہیں خاموش رہنے کاحکم دیاگیا ہے، اس وقت کا فریضہ خطبۂ جمعہ کو بغور سننا ہے، اور اگر امام یا خطیب نے ممانعت کے باوجود سلام کرہی دیا تو کیا حاضرین پر جواب دینا ضروری ہے یانہیں؟ اِس سلسلے میں دو رائے ہیں: جن حضرات کے نزدیک خطبہ جمعہ بغور سننا واجب ہے،اُن کے