اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دین کی جس قدر بھی ضروری ضروری باتیں تھیں ان پر حضرات صحابہ اور تابعین وتبع تابعین اور اس کے بعداسلاف، اُس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں؛اِس لیے کہ اُن کو ثواب حاصل کرنے اور دین کا کام کرنے اور چھوٹی سے چھوٹی سنت ادا کرنے کا ہم سے زیادہ شوق وجذبہ تھا، جس چیز کو انہوں نے دین سمجھا، اہتمام کے ساتھ اس پر عمل کیا اورجن چیزوں کو قدرت ہونے کے باوجود نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دین نہیں ہیں یا ضروری نہیں ہیں۔ …سلام ومصافحہ اور گلے ملنا داخلِ عبادت ہیں اور عبادت کو رسول اکرمﷺ کے حکم کے مطابق ہی ادا کیا جائے جب ہی عبادت میں شمار ہوگی اور ثواب کے حقدار ہوں گے، ورنہ بدعت ہوجائے گی اور ثواب کے بجائے گناہ اور عذاب ملے گا، حدیث شریف میں عیدین اور دوسری نمازوں کے بعد مصافحہ اور گلے ملنے کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا اورصحابۂ کرام جن کو سنت نبویہ سے بے نظیر عشق تھا، ان کے یہاں یااُن کے بعد اسلاف کرام کے عمل سے بھی عید کے موقع پر اِس کا ثبوت نہیں ملتا، شریعتِ مطہرہ سے مصافحہ ومعانقہ و غیرہ، ملاقات کرتے وقت تو ہے نہ کہ نمازوں کے بعد، شریعت نے جو عبادت کاموقع ومحل مقرر کردیا ہے اس کو اسی کے مطابق ادا کیا جائے گاتو ثواب ہوگا۔(مسائل آدابِ ملاقات:۱۰۰) خواص کی ذمہ داری پیچھے ملا علی قاریؒ کی مرقاۃ کے حوالے سے ’’متوازن رائے‘‘ کے تحت یہ بات لکھی گئی ہے کہ؛ اگر اُسی وقت میں کوئی مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا ہی دے تو بد خلقی کا مظاہرہ اچھانہیں، مصافحہ کرلینا چاہیے، وہ بات یہاں بھی کہی جاسکتی ہے کہ اگر کسی شخص سے اتفاقی طور سے عید کے روز اُسی وقت ملاقات ہورہی ہے، تو مصافحہ یا معانقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن خواص اور علماء کواس مصافحہ اور گلے ملنے سے بھی بچنا چاہیے؛ تاکہ عوام میں صحیح میسیج جائے اور وہ اس مصافحہ یا معانقہ کو دین کا جز یا سنت نہ سمجھیں؛ مگر طریقہ داعیانہ ومشفقانہ ہو، ایسا طریقہ اختیار نہ کیا جائے کہ غم وغصہ اور فتنہ وفساد کا دراوزہ کھل جائے۔ ناپاک شخص سے مصافحہ ومعانقہ کرنا اگرکوئی شخص ناپاک ہے اُس پر غسل فرض ہے؛اگراُس سے کوئی مصافحہ یا معانقہ کررہا ہے تو وہ شخص مصافحہ یا معانقہ کرسکتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں: اللہ کے نبیﷺ حضرت حذیفہؓ کے پاس رکے، کہا: حذیفہ اپنا ہاتھ لاؤ، حضرت حذیفہؓ جھجھ کے ، آپ نے دوسری بار یہی کہا تو انہوں نے اپناہاتھ پیچھے کرلیا، آپ نے تیسری بار یہی کہا تو حضرت حذیفہؓ نے عذر بیان کیا، اے اللہ کے رسول میں ناپاک ہوں اور مجھے گوارہ نہیں کہ اس حال میں میرا ہاتھ آپ کے دست مبارک سے مس کرے، آپ نے کہا: ارے ہاتھ لاؤ، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان شخص جب اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کرتاہے، اُسے سلام کرتا ہے اور مصافحہ کرتا ہے تو غلطیاں اور گناہ جو اُن کے مابین ہیں، ایسے گرجاتے ہیں جیسے درخت سے پتے گرتے ہیں۔(شعب الایمان،رقم: ۸۹۵۱ فی ا لمصافحۃ)