اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے کہ فلاں کس مذہب کاماننے والا ہے، اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کے لیے کچھ مخصوص علامتیں مقرر کیں اور اپنی ایک الگ شناخت بنائی؛ تاکہ اسلام وکفر میں فرق ہوسکے، سلام بھی انہیں علامتوں میں سے ایک اسلامی علامت ہے، اِس سے بندگانِ خدا اور باغیانِ خدا کے درمیاں امتیاز وفرق ہوتا ہے؛ لیکن اس کا دوسرا رخ بڑا ہی مُہِیب اور تاریک وتلخ ہے وہ یہ کہ آج اسلامی معاشرے سے پیغمبرِ اسلام کی یہ سنت اور اس کی اِشاعت کم ہوتی جارہی ہے، اسلام نے شناسا وغیر شناسا، ہر ایک کو سلام کرنے کی تعلیم دی ہے؛ لیکن آج اولاً سلام ہی نہیں کیا جاتا اور اگر کیا جاتا ہے تو اکثر جان پہچان ہی کے لوگوں کو، یہ ہمارے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اسی کا منفی نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ باہمی الفت، دلی درد اور اُخوت ومُواسات کی عمارت کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ موجودہ ماحول جو یورپی تہذیب سے متأثر ہے، اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنا اور اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں اور اس سلسلے کی جو کوتاہیاں اور کمیاں، ہماری زندگیوں میں در آئی ہیں اسے دور کریں اور سلام کو خوب رواج دیں؛ کہ سلام اسلامی تہذیب کا اٹوٹ حصہ ہے، غیروں کی تہذیب (ہیلو، گڈبائے، نمستے، پرنام ،بائے وغیرہ) سے پرہیز کریں؛ لہٰذا ہمیں اپنی تہذیب کی اِشاعت اور اسے بروئے کار لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ نے بڑی اچھی بات لکھی ہے: جو قوم اپنے یونیفارم کی محافظ نہیں رہی وہ بہت جلد دوسری قوموں میں منجذب ہوگئی، مسلمان جب سے ہندوستان میں ہیں؛اگر اپنا یونیفارم باقی نہ رکھتے توکب کے مٹ چکے ہوتے، انہوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ کرتا، پاجامہ، عبا، قبا اور دستار محفوظ رکھا؛ بلکہ مذہب اور اسماء الرجال، تہذیب وکلچر، رسم ورواج اور زبان وعمارت وغیرہ جملہ اشیاء کو محفوظ رکھا؛ اِس لیے ان کی مستقل ہستی قائم رہی اور جب تک اس کی مراعات ہوتی رہیں گی، رہے گی؛ لہٰذا ایک محمدی کو حسب ِاِقتضاء ِفطرت اور عقل لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آقا کا سا،رنگ ڈھنگ، چال چلن، صورت وسیرت، فیشن وکلچر وغیرہ بنائے اور اپنے محبوب آقا کے دشمنوں کے فیشن سے پرہیز کرے۔(خلاصہ مکتوبات شیخ الاسلام:۲؍۱۳۰) اللہ رب العزت ہم تمام مسلمانوں کو سلام کی اشاعت وترویج اور اس پر صد فیصد عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے؛ کیوں کہ دنیا وآخرت کی کامیابی کا راز اسلامی تعلیمات میں ہی پوشیدہ ہے