اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
منڈانے اور کترنے میں غیر قوموں کے ساتھ تشبہ ہے، ایسے شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے، ایسا شخص مقبول الشہادۃ اور عادل نہیں،وأما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال، فلم یُبِحْہ أحدٌ، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم ’’فتح‘‘(۱) یحرم علی الرجل قطع لحیتہ۔(۲) (محمودیہ: ۱۹؍۱۰۶) مفتی کفایت اللہ صاحبؒ لکھتے ہیں: جو لوگ ڈاڑھی منڈاتے ہیں یا مونڈی ہوئی کے مثل کترواتے ہیں وہ فاسق کی تعریف میں شامل ہیں۔(کفایت المفتی:۹؍۹۱) حدیث میں ڈاڑھی بڑھانے کو امور فطرت میں سے شمار کیا گیا ہے، دیکھیے: مشکوٰۃ، باب السواک حدیث: ۳۷۹ اس کے تحت ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں: وقص اللحیۃ من صنع الأعاجم وہو الیوم شعار کثیر من المشرکین کالأفرنج والہنود۔(مرقاۃ:۲؍۹۱) حاصل یہ کہ ڈاڑھی سے مردانہ ہیئت کی تکمیل ہوتی ہے اور ڈاڑھی مونڈنا مجوسیوں کا طریقہ تھا اور اب تو تمام غیر مسلموں کا طریقہ ہے؛ پس ڈاڑھی رکھنے سے اُن سے مشابہت ختم ہوتی ہے، اور ڈاڑھی مونڈنا اللہ کی بناوٹ کو بدلنا ہے جو اِغوائِ شیطانی کا نتیجہ ہے۔(رحمۃ اللہ الواسعہ: ۳؍۲۴۴) ان تصریحات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ڈاڑھی مونڈنے یا کترنے والے لوگ سخت گناہوںکے مرتکب ہیں، بقول مفتی کفایت اللہ صاحبؒ: فاسق کی تعریف میں داخل ہیں؛ لہٰذا ضابطہ شرعی کے مطابق انہیں سلام کرنا اور اُن کے سلام کا جواب دینا مکروہ ہوگا۔ لیکن ملک ہندوستان میں عموماًدینی تعلیم سے غفلت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ (۱) الدرالمختار:۲؍۱۱۳۔ (۲) الدر:۵؍۲۱۶۔ ڈاڑھی نہیں رکھتے ہیں، اب ان کا کیا حکم ہوگا، انہیں بہ اتفاق فقہاء کافر تو نہیں کہاجائے گا، اب اگر سلام کلام بھی بندکردیاجائے تو دعوت وتبلیغ کا دروازہ بھی بند ہوجائے گا، آپسی رنجش بھی بڑھے گی اور بجائے اتحاد کے اختلاف وانتشار پیدا ہوگا؛لہٰذا ایسے لوگوں کو سلام کرنا چاہیے، عجب نہیں کہ سلام کرنا آپسی محبت کا ذریعہ بنے گا، پھر انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کا موقع ملے گا؛ چناں چہ مفتی محمود الحسن صاحبؒ کی بات مبنی بر حکمت ہے: لیکن بسا اوقات یہ ترکِ سلام بغض ودشمنی کا باعث بن جاتا ہے، جس کی جہ سے بہت سے احکام کی خلاف ورزی؛بلکہ ہتک ہوتی ہے، نیز اس کے فسق کی وجہ سے اس کے ایمان سے صرفِ نظر ہو کر اس کی بے توقیری بھی بعض دفعہ پیدا ہوجاتی ہے، ایسی حالت میں بحیثیت مومن اس کو سلام کیا جاوے تو اس سے تعلیماتِ اسلام کی اشاعت بھی ہوتی ہے، محبت والفت بھی پیدا ہوتی ہے، جس کی بنا پر ایسے لوگ اسلام کے احکام کو سننے کے لیے بھی آمادہ ہوتے ہیں، بغض اور دشمنی سے تحفظ رہتا ہے اور اپنی بڑائی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ (محمودیہ: ۱۹؍۵) شیعوں کے سلام کا جواب