اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت تھانویؒ سے دریافت کیا گیا کہ خطوں کے اندر جو سلام لکھا ہوا آتا ہے مثلا لکھتے ہیں السلام علیکم اس کے جواب میں وعلیکم السلام لکھنا چاہیے یا السلام علیکم لکھ دینا کافی ہے؟ فرمایا: فقہاء نے دونوں کافی لکھا ہے۔(اسلامی تہذیب:۵۶) تحریری سلام کے جواب کا حکم: غفلت اور اصلاح اگر کسی کے پاس کسی شخص کا خط آئے اور اس خط میں ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ لکھا ہوتو اس کی بارے میں بعض علماء نے فرمایا: کہ اُس سلام کا تحریری جواب دینا چوں کہ واجب ہے؛اِس لیے خط کا جواب دینا بھی واجب ہے، اگر خط کے ذریعہ اس کے سلام کا جواب اور اُس کے خط کا جواب نہیں دیں گے تو ایسا ہوگا کہ جیسے کوئی شخص آپ کو سلام کر ے اور آپ جواب نہ دیں؛ لیکن بعض دوسرے علماء نے فرمایا :کہ اُس خط کا جواب دینا واجب نہیں ہے(۱)؛اِس لیے کہ خط کا جواب دینے میں پیسے خرچ ہوتے ہیں اور کسی انسان کے حالات بعض اوقات اس کے متحمل نہیں ہوتے کہ وہ پیسے خرچ کرے (یا پیسے ہیں؛ لیکن ڈاکخانہ آنے جانے کا چکر بھی ایک مسئلہ ہے،مولف)؛اِس لیے اس خط کا جواب دینا واجب تو نہیں ہے؛ لیکن مستحب ضرور ہے؛البتہ جس وقت خط کے اندر سلام کے الفاظ پڑھے،اُس وقت زبان سے اُس سلام کا جواب دینا واجب ہے اور اگر خط پڑھتے وقت بھی زبان سے سلام کا جواب نہ دیا اور نہ خط کا جواب دیا تو اِس صورت میں ترکِ واجب کا گناہ ہوگا، اِس میں ہم سے کتنی کوتاہی ہوتی ہے کہ خط آتے ہیں اور پڑھ کر اُس کو ویسے ہی ڈال دیتے ہیں نہ زبانی جواب دیتے ہیں نہ تحریری جواب دیتے ہیں اور مفت میں ترکِ واجب کا گناہ اپنے نامہ اعمال میں لکھوالیتے ہیں،یہ سب ناواقفیت کی وجہ سے کرلیتے ہیں؛ اِس لیے جب بھی خط آئے توفوراً زبانی سلام کا جواب دے دینا چاہیے۔(اصلاحی خطبات:۱۶۵) یہی حکم ای میل، فیس بک، ٹوئٹر،واٹس اپ اور میسیج ودرخواست کا ہونا چاہیے۔مولف فأما إبلاغہ إلی المرسل؛ فلیس بواجب کما نقلت عن الشیخ التھانوي، وحینئذٍ لا یجب جواب الرسالۃ البریدیۃ، ولاسیما إذا کان یحتاج إلی بذل مالٍ۔ (تکملہ فتح الملھم:۴؍۲۴۶) بچوں کے لکھے ہوئے سلام کا حکم حضرت تھانویؒ کے افادات میں ہے: بعض بچوں کی طرف سے خطوں میں جو سلام لکھا ہوا آتا ہے تو عام طور سے عادت یہ ہے کہ اُس سلام کے جواب میں صرف دعا لکھ (۱) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکا قول ہے: إني لأری جواب الکتاب عليّ حقا کرد السلام یعنی میں اپنے اوپر خط کے جواب کو ایسے ہی ضروری سمجھتا ہوں جیسے سلام کا جواب: المصنف:۲۲۱، مولف عرض گزار ہے: کہ اول الذکر رائے کی دلیل ابن عباسؓ کا یہ قول ہے، ثانی الذکر رائے کے قائلین اسے استحباب کی تاکید پر محمول کریں گے۔ دیتے ہیں؛ مگر میرے نزدیک اس سے جواب ادا نہیں ہوتا؛ اس لیے سلام اور دعا دونوں لکھتا ہوں؛ لیکن اگر وہ سلام بچے نے نہ لکھوایا ہو یا کسی بڑے نے اُس کی طرف منسوب