اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جامعیت، معنویت، نورانیت و روحانیت اور رموز واشارات کی تفصیل آپ پڑھیں گے توآپ بھی محسوس کریں گے کہ ایمان ویقین میں اضافہ ہورہا ہے، علامہ ابن قیمؒ نے تو یہاں تک لکھ دیا اور کچھ سوچ کر ہی لکھا ہوگا؛ کیوں کہ محقق بلا سوچے سمجھے کوئی بات نہیں لکھتا ، وہ لکھتے ہیں: فإذا کان ہذا في فرع من فروع الإسلام وہو التحیۃ التي یعرفہا الخاص والعام، فما ظنک بسائر محاسن الإسلام وجلالتہ وعظمتہ وبہجتہ التي شہدت بہا العقول الفطن؛ حتی أنہا من أکبر الشواہد وأظہر البراہین الدالۃ علی نبوۃ محمدﷺ وکمال دینہ وفضلہ وشرفہ علی جمیع الأدیان…فلو اقتصر علیہا کانت آیۃ وبرہانا علی صدقہ وأنہ لا یحتاج معہا إلی خارق ولا آیۃ منفصلۃ۔(بدائع الفوائد:۲؍۱۷۸) یعنی جب اسلامی سلام جو فروعات اسلام کی ایک فرع اور شاخ ہائے اسلام کی ایک چھوٹی سے شاخ ہے، جس کو ہر کس وناکس جانتا پہچانتا ہے اور برتتا ہے، اُس کی حکمت ومعنویت اور تاثیر کا یہ عالم ہے کہ عقلیں حیران اور ششدر ہیں تو تمام محاسن اسلام کا کیا عالم ہوگا؟ یہ حضور پاکﷺ کی نبوت ورسالت کی صداقت کی ایک بڑی دلیل اور ظاہر برہان نہیں تو پھر کیا ہے، کیا اِس بات سے دین اسلام کی فضیلت وشرافت تمام ادیان پر ثابت نہیں ہوتی؟ بلکہ اگر اسلام اور پیغمبرِ اسلام صرف اسلامی تحیہ ہی پراکتفا کرتے، مزید احکام ومسائل کی تشریع وتشریح نہ کرتے تب بھی یہ تحیہ دینِ اسلام اور پیغمبر اسلام کی صداقت کی دلیل ہوتی، مزید کسی معجزہ کی ضرورت نہ پڑتی؛ کیوں کہ ربِ کائنات کی طرف سے مقرر کردہ جو چیز بھی ہوتی ہے اُس کا مقابلہ اُسی کی مخلوق؛ وہ بھی کمزور مخلوق کیوں کر کر سکتی ہے، سچ ہے کلام الملوک ملوک الکلام، وإن في ذلک لعبرۃ لأولي الأبصار۔ اور یہ سلام چوں کہ خدا کا عطا کردہ تحیہ ہے، جب اِس کے رموز واشارات اور حکمت بالغہ کا یہ عالم ہے تو خدا کا کمالِ علم ، کمالِ حکمت، کمالِ رحمت او رکمالِ لطف وکرم کا کیا عالم ہوگا، کیا دنیاوی الفاظ میں گنجائش ہے کہ ان کو سمیٹ سکیں؟ ہم انسان کیا کہہ سکتے ہیں، خدواند قدوس نے فیصلہ کردیا ہے، لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ۔(۱) الفاظ کا ہی احاطہ ناممکن ہے تو معانی کا احاطہ کس کے بس میں ہے، لیکن ایک بات جو بہت بڑی بات ہے، وہ یہ کہ سلام کی معنویت اور روحانیت ونورانیت اور اس کی تاثیر کی روح ’’اخلاص‘‘ ہے، جو ہر عمل کی روح ہے، اس کے بغیر سلام بس سلام ہے، خوشبو سے خالی ایک پھول ہے۔ کثرت سے سلام کرنے میں خواتین کی کوتاہی جو بھی شخص راستے میں ملے، جس کے بارے میں اتنا معلوم ہو کہ یہ مسلمان ہے تو ایک (۱) الکہف:۱۰۹۔ مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اُسے سلام کرے، وقت ہو تو خیریت معلوم کرے، یہ حکم صرف مَردوں کا نہیں ہے؛ بلکہ عورتیں بھی اِس حکم کی مخاطب ہیں، وہ اِس حکم کی مکلف ہیںکہ آپس میں شناسائی اور دوستی ہو یا نہ ہو، رشتہ داری ہو یانہ ہو، بس اتنا معلوم ہے کہ یہ خاتون مسلمان ہے تو بوقتِ ملاقات اُسے سلام کریں، اور کثرت سے