اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جسے اللہ نے زمین میں رکھا ہے؛ لہٰذا تم آپس میں سلام کوخوب عام کرو۔ ایسی صورت میں ’’السلام‘‘ کا مطلب ہوگا: اللہ تعالیٰ ایسی ذات ہے جو حدوث وعیوب سے سالم ہے، اس کی صفات، نقائص سے محفوظ ہیں اوراس کے افعال، شر محض سے پاک ہیں اور اس معنی کی بنیاد پر ’’السالم‘‘ اسماء تنزیہہ میں سے ہوگا۔(عمدۃ القاری :۱۵؍۳۵۱) حافظ ابن قیم ؒلکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے جتنے صفاتی نام ہیں اُن میں لفظ سلام، مذکورہ معنی کے اعتبار سے بڑا جامع اور کامل ومکمل ہے، اور خداوند قدوس نے اپنی ذات پر جتنے ناموںکا اطلاق کیا ہے، ان میں سلام ایک ایسا نام ہے، جس کا وہ سب سے زیادہ مستحق ہے؛ کیوں کہ اس کا مفہوم ہوا: اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں ہر طرح کے عیوب ونقائص سے پاک ہیں، اسی طرح صفات میں ہر طرح کے عیوب ونقائص سے محفوظ ہیں اور افعال میں بھی عیوب ونقائص، شر، ظلم اور بلا حکمت کسی فعل کے وقوع سے پاک ہیں، یہی تنزیہہ کی حقیقت ہے۔ فہو السلام من الصاحبۃ والولد، والسلام من النظیر والکفء، والسلام من الشریک۔ اور اسی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر آپ اللہ کی صفات کا جائزہ لیں گے تو ہر صفت میں سلامتی کا مفہوم پائیں گے، چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: اللہ کی صفت حیات، موت، نیند اور اونگھ سے محفوظ ہے، صفت قدرت،تھکن اور پریشانی سے محفوظ ہے، صفت علم، نسیان، غوروفکر سے محفوظ ہے، صفتِ کلام، جھوٹ اور ظلم سے سالم ہے، صفتِ غنا دوسروں کے سامنے کسی بھی درجے میں محتاجگی سے سالم ہے، یہ چند مثالیں ہیں، آپ غور کریں اللہ کا یہ نام ’’السلام‘‘ اپنے اندر تنزیہہ کے معانی کا ایک سمندر رکھتا ہے اور بقول ابن قیمؒ: کتنے لوگ ہیں جنہوں نے لفظ ’’السلام‘‘ کو یاد کیا تو اس کی برکت سے کتنے نا معلوم ، بے حدو شمار اَسرار ورُموز اور معانی وحِکَم کے موتیوں تک رسائی حاصل کرلی، یہ بحث جو ایک علمی بحث ہے مالہ وما علیہ کے ساتھ بدائع الفوائد میں دیکھی جاسکتی ہے۔(بدائع الفوائد :۲؍۱۳۵) حافظ ابن حجرؒ نے ابن دقیق العید ؒسے نقل کیا ہے کہ السلام: بمعنی سلامتی کے بھی آتا ہے اور بمعنی تحیۃ کے بھی؛ جب کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے طورپر بھی استعمال ہوتا ہے۔ (فتح الباری :۱۳؍ ۱۸) راجح بات: مسلمانوں کے سلام وتحیہ کی اصل قرآن کی آیت اور بہت ساری روایات کی روشنی میں یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے(۱) جیسا کہ ابن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہماکی روایات سے معلوم ہوا، نیز علامہ بیہقیؒ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت ذکر کی ہے: لأنہ اسم اللّٰہ وہو تحیۃ أہل الجنۃ (شعب الایمان، رقم الحدیث: ۸۴۴۹) ابن بطالؒ لکھتے ہیں: ولمَّا کان السلام من أسماء اللہ، لم یجز أن یقال: السلام علی اللّٰہ، وجاز أن یقال: السلام علیکم؛ لأن معناہ: اللّٰہ علیکم۔ یعنی لفظ سلام اللہ کا نام ہے؛ لہٰذا ’’السلام علی اللّٰہ‘‘غلط ہے اور ’’ السلام علیکم‘‘ صحیح ہے۔(شرح ابن بطال: ۹؍۹)