اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پیروی ضروری ہے، اِس کے اندر کمی بیشی جائز نہیں؛ لہٰذا سلام اور جوابِ سلام کے وہی الفاظ معتبر ہوں گے، جو قرآن وسنت سے ثابت ہیں، اور اگر سلام کے الفاظ بالکلیہ ترک کردیے جائیں اور اُن کی جگہ دوسرے الفاظ: عربی یا علاقائی زبانوں کے اختیار کیے جائیں تو وہ اسلامی تحیہ نہیں ہوگا، اسلامی سلام وہی ہے جو نبی کریمﷺ کابتایا ہوا ہے اور عربی میں ہے؛ ہاں اگر اسلامی سلام کے بعد، علاقائی کلماتِ ملاقات بولے جائیں، جیسا کہ بولا جاتا ہے تو اِس میں کوئی حرج نہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: اس حدیث سے (۱) ایک اور بنیادی بات معلوم ہوئی، جس سے آج کل لوگ بڑی غفلت برتتے ہیں، وہ یہ کہ احادیث سے معنی، مفہوم اور روح تو مقصود ہے ہی؛ لیکن شریعت میں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے الفاظ بھی مقصود ہیں، دیکھیے ’’السلام علیکم‘‘ اور ’’علیکم السلام‘‘ دونوں کے معنی تو ایک ہی ہیں یعنی تم پر سلامتی ہو؛ لیکن حضور اقدسﷺ نے حضرت جابر بن سُلیم رضی اللہ عنہ کو پہلی ملاقات ہی میں اِس امر پر تنبیہ فرمائی کہ سلام کرنے کا سنت طریقہ اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ ’’السلام علیکم‘‘ کہو، ایسا کیوں کیا؟ اِس لیے کہ اس کے ذریعہ آپ نے امت کو یہ سبق دے دیا کہ ’’شریعت‘‘ اپنی مرضی سے راستہ بنا کر چلنے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ ’’شریعت‘‘ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی اتباع کا نام ہے۔ آج کل لوگوں کی زبانوں پر ا کثر یہ رہتا ہے کہ شریعت کی روح دیکھنی چاہیے، ظاہر اورالفاظ کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، معلوم نہیں لوگ روح کس طرح دیکھتے ہیں، اُن کے پاس کون سی ایسی (۱) اس سے مراد وہ روایت ہے، جس میں ہے کہ حضرت جابر بن سُلیمؓ نے ا بتداء حضورﷺ کو یوں سلام کیا تھا: علیک السلام یا رسول اللہ! تو آپ نے منع فرمادیا تھا،دیکھیے ابوداؤد، رقم:۵۲۰۹۔ خورد بین ہے جس میں اُن کو روح نظر آجاتی ہے؛ حالاں کہ شریعت میں روح کے ساتھ ظاہر بھی مطلوب اور مقصود ہے، سلام ہی کو لے لیں کہ آپ ملاقات کے وقت ’’السلام علیکم‘‘ کے بجائے اردو میں یہ کہہ دیں ’’سلامتی ہو تم پر‘‘ دیکھیے معنی اور مفہوم تو اِس کے وہی ہیں جو ’’السلام علیکم‘‘ کے ہیں؛ لیکن وہ برکت، وہ نور اور اتباعِ سنت کا اجر وثواب، اِس میں حاصل نہیں ہوگا، جو ’’السلام علیکم‘‘ میں حاصل ہوتا ہے۔(اصلاحی خطبات: ۶؍۱۸۶) دکتوروہبہ الزحیلی لکھتے ہیں: ویکرہ تغییر صیغۃ السلام المشروعۃ ہکذا بمثل قول بعضہم: ’’سلام من اللہ‘‘ فذلک بدعۃ منکرۃ۔صیغہ سلام کی تبدیلی مکروہ ہے مثلاً: کچھ لوگوں کا سلام من اللہکہنا بدعت اور منکر ہے۔(الفقہ الإسلامي۴؍۲۶۸۵) فتاویٰ رحیمیہ میں ہے: الفاظِ سلام: (۱) مسنون: سلامٌ یا السلامُ کا لفظ علیک یا علیکم کے ساتھ کہے (۲) جائز: صرف سلام یا تسلیم؛ اس لیے کہ یہ لفظ قرآن میں مذکور؛ مگر آں حضرتﷺ سے غیر