اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ولو أتاہ سلام من غائب مع رسول أو في ورقۃ وجب الرد علی الفور۔ (تکملہ:۴؍۲۴۶) لیکن اِس موقع پر بہت کوتاہی ہوتی ہے، ایسے سلام کا جواب نہیں دیا جاتا اور اگر جواب دیا گیا تو صرف وعلیکم السلام،اِصلاح کی ضرورت ہے، ایسے سلام کا پورا جواب وعلیک وعلیہ السلامہے، اور اگر سلام، عورت نے عورت کا، کسی عورت کو یا مرد کو پہنچایا ہو تو جواب یوں دے علیکِ وعلیہا السلام۔ سلام کا پہنچانا ضروری ہے اگر کسی نے دوسرے شخص سے کہا: کہ فلاں کی خدمت میں میرا سلام عرض کردینا اور اس شخص نے کہا ٹھیک ہے پہنچادوں گا، تو اِرسالِ سلام واجب ہے؛ کیوں کہ قبولیت کے بعد یہ ایک امانت ہے، جس کا پہنچانا واجب ہے، ورنہ یہ ودیعت ہے، پہنچانا واجب تو نہیں؛ لیکن پہنچادے تو احسان ہوگا۔(رد المحتار:۹؍۵۹۵) مذکورہ صورت میں چوں کہ غفلت، سہو یا کسی او رمجبوری کی وجہ سے سلام پہنچانا مشکل ہوجاتا ہے؛ اس لیے مناسب ہے کہ کہنے والا یوں کہے: میرا سلام کہہ دینا ’’اگر یاد رہے‘‘ ’’اگر ممکن ہو‘‘ ’’ بشرطِ سہولت‘‘اگر یہ شخص نہ کہہ سکے تو دوسرا شخص ہی یہ کہہ دے کہ ان شاء اللہ ’’اگر یاد رہا‘‘ ’’ممکن ہوا‘‘ تو عرض کردوں گا، ایسی صورت میں دونوں کے لیے سہولت رہے گی۔ تحریری سلام کے جواب کا حکم اگر سلام تحریری شکل میں ہو مثلاً: خط، درخواست، تعزیت نامہ، میسیج یا اس جیسی کسی چیز میں ہو تو پڑھتے وقت سلام کا جواب دینا ضروری ہے، چاہے زبان سے یا لکھ کر؛ کیوں کہ غائب کا خط وتحریر، حاضر شخص کی موجودگی کے حکم میں ہے۔ إذا کتب لک رجل بالسلام في کتاب ووصل إلیک، وجب علیک الرد باللفظ أو بالمراسلۃ؛ لأن الکتاب من الغائب بمنزلۃ الخطاب من الحاضر، والناس عنہ غافلون۔(رد ا لمحتار:۹؍۵۹۴) اور خط ودرخواست کے سلام کاجواب بھی فی الفور دینا ضروری ہے؛ عموماً اِس سلسلے میں کوتاہی ہوتی ہے لوگ خط یا درخواست پڑھ لیتے ہیں؛ لیکن سلام کا جواب نہیں دیتے، اوپر آپ پڑھ ہی چکے والناس غافلون عنہکہ لوگوں میں اِس حوالے سے غفلت پائی جاتی ہے، خط یا درخواست وغیرہ میں سلام آئے تو دو باتیں ضروری ہیں: جواب دینا اور فی الفور دینا۔ولو أتاہ سلام من غائب مع رسول أو في ورقۃ وجب الرد علی الفور۔ (تکملہ فتح الملھم:۴؍۲۴۶) ہاں اگر جواب تحریری شکل میں دینا ہو تو فی الفور جواب دینا ضروری نہیں؛ بلکہ جوابی خط میں وعلیکم السلاملکھ سکتا ہے۔اور احسن الفتاوی میں ہے: زبانی یا بذریعہ خط جواب دینا واجب ہے، بہتر ہے کہ فوراً زبان سے جواب دے دیا جائے؛ کیوں کہ ممکن ہے خط کے جواب کا موقع نہ ملے تو واجب فوت ہونے کا گناہ ہوگا، خط کا جواب دینے کا ارادہ نہ ہو یا خط قابلِ جواب نہ ہو تو فوراً زبان سے جواب دینا واجب ہے۔(احسن الفتاویٰ:۸؍۱۳۴) جوابی سلام میں کیا لکھے؟