اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرتاہوں۔(کتاب الفتاوی:۶؍۱۲۴) ٹاٹا، بائی بائی کہنا سوال: (۲۰۷۷) گھر سے باہر جاتے وقت چھوٹے بچوں کو ٹاٹا کہا جاتا ہے، یا بائی بائی کہا جاتا ہے، کیا اس طرح کے الفاظ کہنے مناسب ہیں یا ہم اپنے بچوں کو اللہ حافظ کہہ کر ہاتھ ہلائیں تو کیا یہ ہاتھ ہلانا جائز ہوگا؟ جواب: رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو اپنی معاشرت میں غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے؛ چنانچہ اسلام سے پہلے عربوں کے یہاں ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت کچھ اور الفاظ کہے جاتے تھے جو ’’صبح بخیر‘‘ اور ’’شب بخیر‘‘ کے ہم معنی ہوا کرتے تھے؛ بلکہ اُن میں اللہ تعالیٰ کی طرف بھی نسبت ہوتی تھی، کہ اللہ تمہاری صبح اچھی کرے، اللہ تمہاری شب اچھی کرے؛ لیکن رسو ل اللہﷺ نے مسلمانوں کے لیے اُن کلمات کو پسند نہیں فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ وہ جب ایک دوسرے سے ملیں تو ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہیں، جب حضورﷺنے مشرکین کے ایسے کلمات کو بھی پسند نہیں فرمایا ہے جن میں معنی کے اعتبار سے کوئی برائی نہیں تھی، تو ’’ٹا ٹا‘‘ اور ’’ بائی بائی‘‘ جیسے الفاظ کہنے اور یہودو نصاریٰ کی رَوِش اختیار کرنے کی کیسے گنجائش ہوسکتی ہے، صحیح طریقہ یہ ہے کہ سلام کیا جائے اور سلام کا جواب دیا جائے؛ کیوں کہ اِس سے زیادہ جامع کوئی دعا نہیں ہوسکتی، سلام میں ہر طرح کے آفات وشرور سے حفاظت کی دعا ہے اور رحمت اور برکت کی دعا بھی ہے؛ گویا یہ ایک جامع دعا ہے جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے کہتا ہے۔ خدا حافظ کہنے کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ حضورﷺ نے رخصت ہونے والے شخص کو جو دعا دی ہے، اُس میں اللہ تعالیٰ کے حفظ وامان کا ذکر بھی ہے، خدا حافظ کہنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ ہلانے کی اجازت نہیں؛ البتہ اگر مخاطب دور ہوتو جیسے سلام اشارہ سے کیا جاسکتاہے ،اُسی طرح خداحافظ کہنے کے ساتھ ساتھ اشارہ کرنے کی بھی اجازت ہوگی؛بہر حال بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے سماج میں اسلامی ثقافت کو زندہ رکھیں، اِس سے زیادہ نا سمجھی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ دوسرے کے سامنے دست سوال دراز کرے، اسلام جیسے جامع نظامِ زندگی کے موجود ہوتے ہوئے دوسری تہذیب وثقافت سے مانگنے کی چیز حاصل کرنے کی بھی یہی مثال ہے۔(کتاب الفتاوی:۶؍۱۲۶) سلام کے وقت کیانیت ہو؟ اسلام میں اعمال کی قدروقیمت کا دارومدار نیتوں پر ہے، نیتوں کی وجہ سے اعمال کا وزن بڑھتا اور گھٹتا ہے، مومن کی نیت کو اُس کے عمل سے بہتر بتایا گیا ہے، سلام بھی ایک عمل ہے، سلام کے وقت کیا نیت ہونی چاہیے؟ صاحب اوجزؒ نے ابن العربیؒ کے حوالے سے لکھاہے: اگر آپ السلام علیکم بوقتِ ملاقات کسی سے کہیں تو سلامتی کی اِس دعا میں زمین وآسمان میں موجود اللہ کے ہر بندے کو یاد کیجیے، وہ باحیات ہوں یا وفات پاچکے ہوں، اِس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جن جن فرشتوں کوآپ کا سلام پہنچایا جائے گا وہ بھی آپ کو سلامتی کی دعا دیں گے، اور اُن کی دعا کی قبولیت یقینی ہے، آپ کامیابی سے ہم کنار ہوں گے، اور وہ لوگ جو عبادتِ خداوندی میں مصروف ہیں اور آپ نے اُن مقبول بندوں کی بھی نیت کی ہے، تو ان کی