اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوئے) او رکہا: میرا یہی مقصد تھا،(۱) ظاہر سی بات ہے حضرت عمرؓ نے حضورﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ (اوجز:۱۷؍۱۹۷) سوال عمر بن الخطابؓ الرجل عن حالہ علی سبیل التأنیس وحسن العشرۃ لمن عرفہ الإنسان أن یسئل عن حالہ۔(المنتقٰی:۷؍۲۸۲) حضرت ا بوذرؓ شام سے تشریف لائے تو مسجد میں داخل ہوئے وہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے،حضرت ابوذر ؓنے السلام علیکمکہا، انہوں نے جواب دیا وعلیکم السلام، کیف أنت یا أباذریعنی اے ابوذر کیسے ہیں؟ حضرت ابوذرؓ نے کہا بخیرٍ، بخیر ہوں، آپ کیسے ہیں؟ (المصنف:۶؍۱۳۳) تشریح: دیکھیے صحابہ کا آپس میں سلام کے بعد خیریت دریافت کرنے کا معمول تھا؛بالخصوص اگر کافی دنوں کے بعد ملاقات ہو تو خیر خیریت معلوم کرنا اخلاقی فریضہ ہے، اور خیریت معلوم کرنا، سلام سے پہلے جائز نہیں ہے،شرح ابن بطال میں ہے: ولکن لا یکون ہذا إلا بعد التحیۃ المأمور بہا من السلام۔(شرح ابن بطال:۶؍۵۱) (۱) موطا مالک،ر قم الحدیث: ۱۷۳۱، باب جامع السلام۔ خوش آمدید کہنا سلام ومصافحہ اور معانقہ کے بعد اگر آنے والے کوخوش آمدید کہا جائے، اُس کا پر جوش اور پرتپاک استقبال کیا جائے تو اِس سے مودت ومحبت اور فرحت وسرور میں اضافہ ہوتاہے، نفرت وعداوت کی بیخ کنی ہوتی ہے، بہ الفاظِ دیگر خوش آمدید یا اِس جیسے جملے کے ذریعہ مقصدِ سلام کی تکمیل ہوتی ہے اور مہمان کی آمد پر میزبان کو اِنشراح ہے اِس کا اظہار ہوتا ہے، عربی میں خوش آمدید کی جگہ مرحباً بک استعمال ہوتاہے اور یہ چیز تقریبا ًتمام مذاہب میں ہے، انگریزی تہذیب میں Welcome اور غیر مسلموں کے یہاں سَوَاگتَمْ جیسے الفاظ مستعمل ہیں؛ لہٰذا ہم مسلمانوں کو بھی مرحبا، مرحباً بکم، أہلا وسہلا خوش آمدید وغیرہ سلام کے بعد کہنا چاہیے، نبی کریمﷺ سے مرحبا اور خوش آمدید کہنا ثابت ہے، امام ترمذیؒ نے باب ما جاء فی مرحباًکے تحت یہ حدیث ذکر کی ہے۔ (۱) حضرت علیؓ کی حقیقی بہن اُم ّہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: کہ میں فتح مکہ کے دن آپ ﷺکے پاس گئی، میں نے آپ کو نہاتے ہوئے پایا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کپڑے سے آپ کو چھپائے ہوئے تھیں، ام ہا نی کہتی ہیں: میں نے سلام کیا آپ نے پوچھا (ظاہر ہے پہلے جواب دیا ہوگا) من ہذہ؟ کون ہے؟ میں نے عرض کیا، میں ام ہانی ہوں، آپ نے فرمایا: مرحبا بأم ہانيکہ ام ہانی کو میں خوش آمدید کہتا ہوں…(ترمذی، رقم: ۲۷۳۶، باب ما جاء فی مرحبا) تشریح: (۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر فتنہ وفساد کا خطرہ نہ ہو تو عورت مرد کو سلام کرسکتی ہے۔ (۲) جو شخص غسل کررہا ہو اور ننگے نہ ہو؛ بلکہ پردہ میں ہو تو اُسے سلام کرسکتے ہیں۔ (۲) دوسری حدیث: حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس دن میں