اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عارضی نہ ہو، جب یہ تینوں کسی انسان کی زندگی میں موجود ہوں تواُس کی دنیا، دنیا نہیں؛ بلکہ جنت کا نمونہ ہے۔ یقین جانیے اسلامی تحیہ ان تینوں معانی پر مشتمل ہے، دیکھیے السلام علیکم یتضمن السلامۃ من الشر یعنی السلام علیکم سے شرور وفتن سے حفاظت کی جانب اشارہ ہے، ورحمۃ اللہ یتضمن حصول الخیر یعنی ’’ورحمۃ اللہ‘‘ خیر وبھلائی کے حصول سے کنایہ ہے وقولہ وبرکاتہ یتضمن دوامہ وثباتہ اور ’’وبرکاتہ‘‘ دوام وثبوت اور حصولِ خیر کی پائیداری سے عبارت ہے؛ کیوں کہ برکت کا مفہوم کثرتِ خیر اور استمرارِ بھلائی ہے، اللہ اکبر اِس چھوٹے سے جملے میں، اللہ اور اُس کے رسول نے پوری دنیا کی بھلائی سمیٹ دی ہے۔ إن اللہ علی کل شيء قدیر۔ کاش سلام کے وقت اِن معانی کا استحضار ہم مسلمانوں کو ہوتا اور اِس پر کامل درجے کا یقین ہوتا، ہم پریشان نہ ہوتے، خوش حال ہوتے، مطمئن ہوتے۔(خلاصہ بدائع الفوائد بحذف واضافۃ:۲؍۱۷۸) کیا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ پورا کہنا ضروری ہے؟ ایک شبہ اور شبہ کا حل - ایک علمی بحث اوپر کی تفصیل سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب ا سلامی تحیہ میں مذکورہ تینوں حکمتیں مُضمرہیں تو ہر وقت اور ہمیشہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنا ضروری ہوگا؛ حالاں کہ سلام کا ادنیٰ درجہ ’’السلام علیکم‘‘ہے اور اِس پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور صرف السلام علیکمکے ذریعہ بھی سلام کی سنت ادا ہوجاتی ہے؛حالانکہ جس نے السلام علیکم کہا اُس نے مکمل دعا نہیںدی، اس نے صرف سلامتیٔ شرکی دعا دی، اِسی طرح جس نے السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ کہا اُس نے سلامتی اور بھلائی کے حصول کی دعا دی، اِس میں بھی دعا کی تکمیل نہیں ہوئی ؛حالاں کہ یہ بھی سلام ہے اور اِس پربیس نیکیاں ملتی ہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اگر سلام کرنے والے نے السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہکہا تو یہ اعلی درجے کا سلام ہے اور یہ الفاظ اپنے معانی پر مکمل طور سے دلالت کرتے ہیں، اہل علم اِسے دلالت مطابقی کہتے ہیں، اور اگر اُس نے السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہکہا تو لفظوں کے اعتبار سے تعداد کم ہے؛ لیکن معانی مکمل ہیں اور یہ دونوں تیسرے معنی پر دلالت کرتے ہیں، بہ الفاظ دیگر سلام اور رحمت ، برکت کو متضمن ہیں،اہلِ علم ایسی دلالت کو دلالتِ تَضَمُّنی کہتے ہیں، اور اگر اُس نے صرف السلام علیکم کہا تو لفظوں کے اعتبار سے، کم ہے؛ لیکن یہاں بھی رحمت وبرکت اس کے معانی میں شامل ہیں ،بہ الفاظِ دیگر رحمت وبرکت، سلامتی کے لیے لازم ہیں، جب سلام ثابت ہوگا تو اُس کے لازمی معانی رحمت وبرکت بھی ثابت ہوں گے، اہل ِعلم اِسے دلالت اِلتزامی کہتے ہیں؛ کیوں کہ سلام کے مفہوم میں اگر رحمت وبرکت داخل نہ ہوں تو یہ سلام، سلام نہیں رہ جائے گا، رہ گئی بات نیکیوں میں کمی زیادتی کی تو وہ تلفظ پر موقوف ہے، جتنے الفاظ زبان سے نکلیں گے، اتنی نیکیاں لکھی جائیں گی۔(بدائع الفوائد بحذف وزیادۃ:۲؍۱۷۸) سلام میں رحمت وبرکت کے ساتھ اللہ کا ذکر کیوں؟ السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ میں رحمت اور برکت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی