اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(فروع الایمان مع اصلاحی نصاب: ۴۲۱) مسئلہ: جب بُعد (دوری) یا کسی اور وجہ سے آوازِ سلام سمجھ میں نہ آسکے تو ہاتھ سے اِعلام واِعلان مباح ہے۔(فتاوی رحیمیہ:۱۰؍۱۳۱) یعنی عام حالات میں صرف ہاتھ سے یاسر سے سلام کرنا جائز نہیں؛ بلکہ مجبوری کی حالت میں ہاتھ سے اشارہ کرسکتا ہے؛ لیکن لفظِ سلام اور جواب سلام کے الفاظ اور اشارہ دونوں کو جمع کرے، اور گونگا کا مسئلہ الگ ہے وہ ہاتھ کے اشارے سے ہی سلام یا سلام کا جواب دے گا، اُس کے حق میں، اِشارہ تلفظ کے درجہ میں ہے۔ سلام کے جواب میں صرف سر ہلانا، بد مذاقی ہے حضرت تھانویؒ کے مواعظ میں ہے: بعض لوگ جو سلام کے جواب میں، سر ہلاتے ہیں اور زبان سے’’وعلیکم السلام‘‘ نہیں کہتے ہیں وہ بد مذاق ہیں کہ ٹکاسی زبان نہیں ہلاتے اور دھڑا سا سر ہلادیتے ہیں، ممکن ہے کوئی معقولی اِس کی توجیہ کرے کہ فعل بسیط، فعل مرکب سے آسان ہوتا ہے اور سر کا ہلانا اضافہ او رفعل بسیط ہے، اور زبان کا چَلانا فعل مرکب ہے؛ کیوں کہ الفاظ کو مخارج سے خاص ہیئت وترکیب کے ساتھ ادا کرنا پڑتا ہے۔ سو جواب اِس کا یہ ہے کہ اس لحاظ سے؛ اگر چہ سر ہلانا سہل ہے؛ مگر جس غرض سے سلام کرتے ہیں اُس غرض وغایت کے لحاظ سے زبان ہی کا فعل آسان ہے؛ کیوں کہ سر ہلانے سے وہ غرض حاصل نہیں ہوتی، سلام سے مقصود دعا ہے اور وہ بدونِ کلام وتکلم کے حاصل نہیں ہوتی تو جو لوگ سلام وجوابِ سلام میں سر ہلاتے ہیں ان کو غایات ومقاصد سے دلچسپی نہیں اور یہی بد مذاقی کی علامت ہے۔ (خطبات حکیم الامت:۲۸؍۱۲۳، اصلاح ظاہر) (۱) معلوم ہوا کہ سلام کے موقع پر صرف ہاتھ اٹھا دینا کافی نہیں ہے، شہر حیدرآباد میں، دیکھا جاتا ہے کہ سلام کرنے والا، سلام کرتے وقت، اپناہاتھ مخصوص اندازمیں اپنے چہرے یا سینہ تک لے جاتا ہے اور بعض لوگ ہاتھ کو حرکت بھی دیتے ہیں، یہ طریقہ، اسلامی طریقہ نہیں ہے، اور جواب دینے والا بھی بعض دفعہ ایسے ہی کرتا ہے،یہ بھی زائد چیز ہے،مولف۔ کون سلام میں پہل کرے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ کو۔ دوسری روایت میں ہے: چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گذرنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے زیادہ کو۔(بخاری، رقم: ۵۸۷۹، ۵۸۸۰) اِن دو احادیث میں اِس کا بیان ہے کہ سلام میں پہل کون کرے؟اور کس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سامنے والے کو پہلے سلام کرے، ترتیب وار مسائل درج ذیل ہیں، اور شارحینِ حدیث نے ابتداء کی اس ترتیب میں جو حکمتیں بیان کی ہیں وہ بھی یہیں لکھی جائیں گی۔