اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رضی اللہ عنہا کی ایک روایت پیش کی جاسکتی ہے کہ حضورﷺ ایک روز مسجد سے گذرے اور وہاں عورتوں کی ایک جماعت (دینی تعلیم کے حصول کے لیے) موجود تھی، تو آں جناب نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے سلام کیا اور امام ترمذیؒ نے اِس حدیث کے بارے میں ’’ہذا حدیث حسنٌ‘‘ کہا ہے۔ علامہ نوویؒ نے اِس حدیث کے بارے میں کہا ہے: کہ اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ نے لفظ، اشارہ دونوں کو جمع کیا تھا، صرف اشارے سے سلام نہیں کیا تھا، اور اِس کی تائید اِس سے ہوتی ہے کہ ابوداؤدؒ نے بھی اِس روایت کو نقل کیا ہے اور اُس میں فأہوی بیدہ (اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا) کے بعد فَسَلّم علینا کے الفاظ زائد ہیں، اگر صرف ہاتھ سے اشارہ کیا تھا تو فَسَلَّم علینا کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔(فتح ا لباری:۱۱؍۱۸، مرقاۃ: ۹؍۵۷) ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں: کہ اگر مان لیا جائے کہ حضورﷺ نے زبان سے نہیں؛ بلکہ محض اشارے سے سلام کیاتھا، تب بھی مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ کیوں کہ یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے؛ لہٰذا آپ کو سلام کرنے، نہ کرنے اور اشارہ سے سلام کرنے نہ کرنے؛ ہرطرح کا اختیار ہے، ثانیاً کبھی اشارہ سے بغیر سلام کے قصد کے، محض تواضُع کو مراد لیا جاتا ہے، ثالثاً اشارہ سے سلام کرنا، عورتوں کے حوالے سے، بیانِ جواز پر محمول ہے، مَردوں کا یہ مسلہ نہیں ہے۔(مرقاۃ المفاتیح:۹؍۵۷) فائدہ: ملا علی قاریؒ نے مذکورہ حدیث کی جو تاویلات پیش کی ہیں، اُن سے اُن ساری روایتوں کا جواب بن جاتا ہے، جس میں کچھ صحابہ کرام کا اشارے سے سلام کرنا مروی ہے، ایسی روایات کے لیے دیکھیے امام بخاریؒ کی الأدب المفرد (باب من سلم إشارۃ) لیکن امام بخاریؒ نے ایسی روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد آخری روایت عطا بن ابی رباحؒ کی نقل کی ہے،وہ فرماتے ہیں: کانوا یکرہون التسلیمَ بالید، وقال: کان یکرہ التسلیم بالید (الأدب المفرد: رقم: ۹۴۰) یعنی اکثر صحابۂ کرامؓ ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنے کو نا پسند کرتے تھے، اور خود حضرت عطا بھی اِسے ناپسند کرتے تھے۔ مولف عرض گزار ہے کہ امام بخاریؒ نے اس آخری روایت سے اِس جانب اشارہ کیا ہے: کہ محض ہاتھوں کے اشارہ سے سلام، کچھ صحابہ کرامؓسے ثابت ہے؛ لیکن اکثر صحابہ کرامؓ زبان سے سلام کرتے تھے اور یہی معمول بہاہے۔ چند مسائل مسئلہ: سلام کے ساتھ ہاتھ اٹھانے کی بھی گنجائش ہے؛ اگر چہ ضرورت نہیں۔(محمودیہ:۹؍۷۳) مسئلہ: لفظ اور اشارہ کا جمع کرلینا جیسا کہ ہمارے بلاد میں معمول ہے، اگر چہ اولی نہ ہو؛ مگر جائز ہے؛ خصوصاً جب کہ یہ اشارہ علامتِ تعظیم وتوقیر، عرفاً قرار پاچکا ہے۔(فتاوی رحیمیہ: ۱۰؍۱۳۱) مسئلہ: قرآن مجید میں ہے کہ جب تم کو کوئی سلام کرے تو اُس سے اچھا جواب دو یا ویسا ہی لوٹا دو، اِس سے معلوم ہوا کہ سلا م کے جواب میں سرہلا دینا یا ہاتھ اٹھادینا (۱) کافی نہیں۔