اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اگر کوئی مسلمان کسی ایسی جماعت کے پاس سے گذرے یا کسی ایسی مجلس میں پہنچے، جس میں مسلمان بھی ہوں اور غیر مسلم بھی اور مسلمان خواہ ایک ہی ہو یاکئی ہوں، تو مسنون یہ ہے کہ مسلمانوں کا قصد کر کے پوری جماعت کو سلام کرے۔(۲) نیزعلماء نے لکھا ہے: کہ اس صورت میں چاہے تو السلام علیکمکہے: اور نیت یہ رکھے کہ اس سلام کے اصل مخاطب مسلمان ہیں اور چاہے یوں کہے (۱) جو چیزیں دوسری قوموں کی مذہبی وضع ہیں، ان کو اختیار کرنا کفر ہوگا، جیسے صلیب لٹکانا، سر پر چوٹی رکھ لینا…یاجَے پکارنا،حیاۃ المسلمین:۲۴۵۔ (۲) بخاری میں حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے: أن النبيﷺ مَرَّ في مجلسٍ فیہ أخلاط من المسلمین والمشرکین وعَبَدَۃِ الأوثان والیہود…فسلَّم علیہم النبيﷺ۔بخاری:۶۲۵۴۔ السلام علی من اتبع الہدی(اس پر سلامتی ہو جس نے راہ ہدایت کی پیروی کی)(مظاہر حق:۵؍۳۴۳) آفس میں غیرمسلم کو گڈ مارننگ کہنا سوال: کیا آفس میں کافر آدمی کو گڈ مارننگ کہا جاسکتا ہے؟ جواب: کبھی ضرورتاً کہہ دیا تو گنجائش ہے، غیروں کا شعار ہے؛ اس لیے بچنا بہتر ہے۔ (فتاویٰ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند: ۸۵۴۸) تبلیغ اسلام کے وقت کافر کو سلام کرنے کا طریقہ جو شخص مسلمان نہیں ہے، اُس کو اسلام کی دعوت ایک نہایت بلیغ انداز میں دینے کے لیے اور اُن کو تبلیغی خطوط میں لکھنے کے لیے یا ان لوگوں سے دعوت وتبلیغ کے عنوان سے ملاقات کی صورت میں جو الفاظ نصوص شرعیہ سے ثابت ہیں وہ السلام علی من اتبع الہدیکا جملہ ہے،جو حقیقت میں ایک مُقیَّد سلام ہے،اور اُس میں دعوت کے ساتھ وعدہ اور وعید دونوں ہیں: کہ جو ہدایت کا تابع ہے وہ تو اللہ کے عذاب سے محفوظ ہے، اُس کے لیے دعائِ سلامتی ہے، اور جس میں ہدایت کی صفت نہیں وہ اللہ کے عذاب سے محفوظ نہیں اور نہ ہی اس کے لیے سلامتی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما الصلاۃ والسلام کا فر عون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے سلسلے میںمیں اُن دونوں کا قول نقل فرمایا ہے: قَدْ جِئْنَاکَ بِآیَۃٍ مِّن رَّبِّکَ وَالسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی۔(طہ:۴۷) اورر سول اللہﷺ نے شاہِ روم، ہِرقل کو خط میں لکھا تھا: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم: من محمد عبد اللّٰہ ورسولہ إلی ہرقل عظیم الروم، سلام علی من اتبع الہدی۔(بخاری:۷) اور یہ سلام، سلامِ تحیہ اور معروف سلام نہیں ہے؛ورنہ تو حضورﷺ نے کفار کو ابتداء ً سلام کرنے سے منع کیاہے، اِس لفظ میں تمام کفار ومشرکین کو دعوتِ اسلام دینے کا ایک لطیف طریقہ ہے۔ لفظِ سلام کے علاوہ دوسرے الفاظ سے غیر مسلموں کو دعا دے سکتے ہیں یا نہیں؟ کسی مصلحت وضرورت اور سماجی واخلاقی ضرورت کے تحت غیر مسلموں کو دعا دے سکتے ہیں، اگر کوئی ضرورت اِس بات کی متقاضی نہیں ہے تو کچھ نہ کہے؛