اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مصروفیت ومشغولیت ہے؛ کیوں کہ یہ مُناجات مع اللہ کا ذریعہ اور استغراق فی اللہ کا سبب ہے؛ لہٰذا کسی اور چیز کی مشغولیت اچھی بات نہیں ہے۔(مرقاۃ المفاتیح:۳؍۵) بخاری کی مذکورہ حدیث نقل کر کے شارح بخاری علامہ عینی حنفیؒ نے لکھا ہے: وفیہ: کراہۃ السلام علی المصليیعنی اس حدیث سے فائدے کے طور پر معلوم ہوا کہ نمازی کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ (عمدۃ القاری:۵؍۶۲۴) اور علامہ نوویؒ نے بھی نمازی کو سلام کرنا مکروہ لکھا ہے۔(الأذکار:۲۸۷) اور امام مالکؒ کا بھی ایک قول یہی ہے۔(فتح الباری:۳؍۱۱۳) البتہ امام احمد ؒاور جمہور کی رائے ابن حجر ؒنے عدم کراہت کی نقل کی ہے۔(ایضا) (۱) شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی صاحبؒ ،ابن حجرؒکے حوالے سے لکھتے ہیں: أن المستغرق في العبادۃ یسقط عنہ الرد، جب جواب ساقط ہوجاتا ہے تو سلام نہ کرنا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگا ، اوجز:۱۷؍۱۹۲ کیا نمازی اشارے سے سلام کا جواب دے سکتا ہے؟ نمازی کو سلام کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص نمازی کو سلام کرہی دے تو کیا وہ جواب دے سکتا ہے؟ اِس پر تو ائمہ کا تقریباً اتفاق ہے کہ نماز میں سلام کا جواب الفاظ کے ساتھ دینا جائز نہیں؛ بلکہ اگر کوئی نماز میں وعلیکم السلامکے ذریعہ جواب دے تو نماز فاسد ہوجائے گی(۱) پھر اس پر بھی اتفاق ہے کہ اشارے سے سلام کا جواب دینا مفسدِ صلاۃ نہیں ہے یعنی وہ اشارہ سمجھ لیا جائے یا نہ سمجھا جائے اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی؛ کیوں کہ یہ عمل قلیل ہے۔ مذاہب ائمہ کی تحقیق اشارے سے جواب دینے کے سلسلے میں ائمہ کے اقوال میں بڑا اختلاف ہے: علامہ عینیؒ نے ابن بطالؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے: کہ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ تینوں کے نزدیک اشارے سے سلام کا جواب دینا مکروہ ہے، اور امام مالکؒ کے دو قول ہیں :ایک قول کراہت کا ہے(عمدۃ القاری:۵؍۶۲۲) جب کہ علامہ نوویؒ نے الاذکار میں اور ابن قیمؒ نے زاد المعاد میں اشارے سے جواب دینے کو مستحب لکھاہے۔(الأذکار۲۸۸؍زاد المعاد ۳۸۳) نیز اعلاء السنن میں ہے کہ اشارے سے سلام کا جواب دینا مستحب ہے وبہ قال الشافعي ومالک وأحمد وأبو ثور۔(اعلاء السنن:۵؍۴۱) مولانا عبد الحئ صاحبؒ نے التعلیق الممجد میں امام شافعی ؒکا مذہب استحبابِ رد ہی لکھا ہے اور امام احمدؒ کا یہ لکھا ہے: کہ ان کے نزدیک فرض ونفل میں فرق ہے،یعنی فرض میں مکروہ اور نفل میں (۱) ایک مسئلہ: ایک شخص نماز میں کسی کانام لے کر اس کو سلام کرتا ہے؛ لیکن وہ آدمی سامنے نہیں ہے، نہ اسے کچھ پتہ ہے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی، دورِ اول میں لوگ التحیات میں احباب واعزہ کا نام لے کر، اُن پر سلام بھیجتے تھے اور قرآن کریم میںہے: سلٰمٌ علی إل یاسن، سلام علی موسٰی وہارون؛ مگر وہاں کوئی مخاطب نہیں ہوتا؛ اس لیے یہ کلام الناس نہیں؛ پس نماز فاسد نہ ہوگی، کلام الناس ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی سے خطاب ہو، تو نماز فاسد ہوگی، اور نبیﷺ نے قنوت نازلہ میں کفار کے قبائل کے نام لیے ہیں اور کمزور