اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بلکہ اللہ کی لعنت اور غضب کا بیان ہے وہاں اُسے مقدم کیا گیا ہے، جو مستحقِ لعنت ہے مثلا: اللہ تعالیٰ کا ابلیس سے کہنا: وَإِنَّ عَلَیْْکَ لَعْنَتِیْ إِلَی یَوْمِ الدِّیْنِ۔(۳) اور جیسے وَإِنَّ عَلَیْْکَ اللَّعْنَۃَ۔(۴) وَعَلَیْْہِمْ غَضَبٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْد۔ (۵) (زاد المعاد: ۲؍۳۸۵) (۳) الفرق بین الرد والابتداء آغاز سلام اور جواب سلام میں فرق کرنے کے لیے یہ ترتیب اختیار کی گئی ہے؛ کیوں کہ اگر سلام کرنے والے نے السلام علیکم کہا اور جواب دینے والے نے بھی السلام علیکم کہا تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ سلام کس نے کیا اور جواب کس نے دیا؛ بالخصوص اُس وقت جب کہ جوابِ سلام بالکل متصلًا اور بغیر وقفہ کے دیا جائے، سلام کرنے والے کا مقصود یہ ہے کہ وہ اُسے جواب دے، یہ مقصود نہیں ہے کہ وہ سلام سے اسی طرح آغاز کرے جیسے اُس نے کیا ہے اور جواب کا پتہ اُسی وقت چلے گا؛ جب کہ سلام اور جوابِ سلام میں کوئی وجہ فرق ہو، اور غالباً یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ نے اُن صحابی کو منع کیا جنہوں نے علیک السلام کہہ کر سلام کیاتھا۔ (۱) الصافات: ۷۹۔ (۲) الصافات: ۱۳۰۔ (۳) ص:۷۸۔ (۴) الحجر:۳۵۔ (۵) الشوریٰ: ۱۶ فإنہ لو قال لہ في الرد: السلام علیکم أو سلام علیکم لم یعرف أ ہذا رد السلام أم ابتدأَ تحیۃ منہ؛ فإذا قال: علیک السلام عرف أنہ قد رد علیہ تحیتہ۔(بدائع:۲؍۱۵۲) (۴) سلام کرنے والااپنے مومن بھائی کو سلامتی کے نزول کی دعا دیتا ہے،اُس کے پیش نظر سلامتی ہے؛ لہٰذا یہاں سلام کو مقدم کیا گیا اور جواب دینے والا وعلیکم السلام کہہ کر، سلام کرنے والے کے لیے سلامتی وحفاظت کا خواہاں ہوتا ہے ، وہ یہ چاہتا ہے کہ جب اِس مومن بھائی نے سلام کر کے مجھے سلامتی کی دعا دی ہے تو میرا اخلاقی اور شرعی فریضہ بنتا ہے کہ میں بھی اُسے سلامتی کی دعا دوں؛ چناں چہ اِس جذبے کے اظہار کے لیے وہ ’’وعلیکم‘‘ کو مقدم کرتا ہے، بالفاظِ دیگر سلام کرنے والے کا نام پہلے لیتا ہے کہ میں بھی آپ کے لیے شرور وفتن سے سلامتی اور حفاظت کا مُتَمَنِّی ہوں۔(بدائع الفوائد:۲؍۱۵۳) (۵) لفظ سلام کی تقدیم میں مخاطب کو اولِ وہلہ میں اطمینان دلانا ہے اور تفاولِ نیک کا ارادہ کرنا ہے، جو لفظ ’’علیکم‘‘ مقدم کرنے کی صورت میں حاصل نہیں ہوتا؛ کیوں کہ لفظ ’’علی‘‘ سے ایہامِ ضرر ہوسکتا ہے؛ البتہ جوابِ سلام ’’وعلیکم السلام‘‘ میں واؤ عاطفہ چوں کہ پہلے ہے، جس کے ذریعہ سلام پر عطف ہونے کی وجہ سے علیٰ موہمِ ضرر نہیں رہتا؛ اس لیے جوابِ سلام میں علی کی تقدیم گوارا کر لی گئی۔(تفسیر انوار القرآن:۲؍۴۲۱) السلام علی اللّٰہ کہہ سکتے ہیں یانہیں؟ بہ الفاظ دیگر اللہ کو سلام کرسکتے ہیں یا نہیں؟ السلام علی اللّٰہ کہنا درست نہیں ہے، حضورﷺ نے اِس سے منع فرمایا ہے، حضرت ابن مسعود رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں: کہ ہم لوگ نمازوں میں السلام علی اللہ قِبل عبادہ، السلام علی جبرئیل، السلام علی میکائیل، السلام علی فلان وفلان یعنی اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو، جبرئیل ؑپر سلام ہو، میکائیل ؑپر سلام ہو، فلاں فلاں پر سلام ہو، نماز سے فراغت کے بعد حضورﷺ نے ہماری طرف چہرہ پھیر کر فرمایا: ’’إن اللہ ہو السلام‘‘