اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روم کو خط لکھا تواُن کے لیے ’’عظیم الروم‘‘ کا لفظ استعمال کیا؛ کیوں کہ اہل روم اُن کو اسی لقب سے یاد کیا کرتے تھے؛ اِس لیے اگر کسی غیر مسلم وزیر کا کھڑے ہو کر ہاتھ باندھے بغیر خیر مقدم کیاجائے تو اِس کی گنجائش ہے کہ یہ بھی توقیر واحترام کا ایک طریقہ ہے۔(کتاب الفتاویٰ:۱؍۲۸۲)(۱) قیام کا قانون غلط ہے بعض متکبر افسران اپنے ماتحتوں کے لیے قانون بنادیتے ہیں کہ وہ ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوا کریں، اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کی شکایت ہوتی ہے، اُس پر عتاب ہوتاہے اور اُس کی ترقی روک دی جاتی ہے، ایسے افسران بلا شبہ اس ارشاد نبویﷺ کا مصداق ہیں کہ ’’انہیں چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائیں‘‘ (آپ کے مسائل ۷؍۲۶۲) مہمان کے لیے قیام وتقبیل بڑوں کے لیے قیام کرنا درست بلکہ مستحسن ہے، مہمان کا اکرام چاہیے، تقبیل یدین میں بھی مضائقہ نہیں، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ جب حبشہ سے مدینہ طیبہ آئے تو حضرت نبی اکرمﷺ نے ان کی پیشانی کی تقبیل کی تھی، ہاں! محل فتنہ ہو تو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ رسمی تعظیم -- ایک واقعہ حضرت تھانویؒ کے وعظ میں ہے: ایک صاحب تشریف لائے اور سلام کر کے کھڑے ہوگئے، بہت دیر ہوگئی میں نے کہا بیٹھتے کیوں نہیں؛ کہنے لگے بلا اجازت کیسے بیٹھوں، میں نے کہا ابھی ایک ہفتہ تک اجازت نہیں بس فوراً بیٹھ گئے، میں نے کہا یہ کیا واہیات ہے یا تو بلا امر بیٹھتے نہ تھے یا اب (۱) قیام کی چند قسمیں ہیں: ایک محبت کا وہ ایسے شخص کے لیے جائز ہے، جس سے محبت کرنا جائز ہے، دوسری قسم قیام تعظیمی ہے، اس میں اگر تعظیم دل سے ہو تو وہ شخص اس تعظیم کے قابل ہونا چاہیے، ورنہ اگر تعظیم کے قابل نہیں مثلاکافر ہے تو اس قسم کی اجازت نہیں، اور اگر تعظیم صرف ظاہر میں ہے اور کسی مصلحت سے ہے، مثلا یہ خیال ہے کہ اگر تعظیم نہ کریں گے تویہ شخص دشمن ہوجائے گا یا یہ کہ خود اس کی دل شکنی ہوگی یا اس شخص کے ہدایت پر آنے کی امید ہے، یا یہ شخص اس کا محکوم ونوکر ہے، یا ایسی ہی کوئی اور مصلحت ہے توجائز ہے…اور اگر نہ وہ قابل تعظیم ہے نہ کوئی مصلحت وضرورت ہے تو ممنوع ہے، امداد الفتاویٰ:۴؍۲۱۷۲۔ باوجود نہی کے بیٹھ گئے اور رواج یہ ہے کہ جب رخصت ہوں گے تو الٹے پاؤں چلیں گے پشت کرنا بے ادبی سمجھتے ہیں، ظاہری برتاؤ تواِس قدر اچھا، مگراطاعت کانام نہیں، ہاں رسمی تعظیم وتکریم بہت ہے، ہم لوگوں کی طبیعتیں ہی بدل گئیں، صحابہ رسمی تعظیم بہت نہ کرتے تھے مگر مطیع اِس قدر تھے کہ دنیا کو معلوم ہے صحابہ کو جو تعلق حضورﷺ سے تھا وہ تعَشُّق کا مرتبہ ایسا رکھتا ہے کہ دنیا میں کسی محب اور محبوب میں اِس کی نظیر ملنا مشکل ہے؛ لیکن حالت یہ تھی کہ اِس کے بھی پابند نہ تھے کہ حضورﷺ کو آتے دیکھ کر کھڑے ہی ہوجایا کریں، خود حضورﷺ نے بھی اُن کو